(۱۰)
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
معانی: انتہا: اخیر ۔ سادگی: بھولپن ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں محبوب سے مخاطب ہو کر شاعر کہتا ہے کہ میں تیرے عشق کے ان انتہائی مراحل تک رسائی حاصل کرنے کا خواہاں ہوں جن سے آگے اور کچھ نہیں لیکن یہ خواہش میری سادگی کے علاوہ بظاہر اور کچھ نظر نہیں آتی ۔
ستم ہو کہ ہو وعدہَ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
معانی: بے حجابی: مراد کھل کر سامنے آنا ۔ صبر آزما: جس سے قوتِ برداشت پرکھی جائے ۔
مطلب: میرے نزدیک ظلم و ستم اور وعدے وعید ایک ہی نوعیت کے ہیں کہ عشق و محبت میں یہی کچھ ہوتا ہے اور اسی قسم کی توقعات رکھی جانی چاہیں ۔
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
معانی: زاہدوں : جمع زاہد، عبادت گزار ۔ آپ کا سامنا: مراد خدا کا سامنے ہونا ۔
مطلب: بہشت کا تصور تو زاہدوں کو ہی مبارک ہو کہ ان کا زہد و تقویٰ اسی مقصد کا حامل ہوتا ہے جب کہ میرے لیے تو اپنے محبوب سے ملاقات ہی کافی ہے ۔ یہ ملاقات ہی میرے لیے جنت سے کم نہیں ۔
ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں
معانی : لن ترانی: تو مجھ نہیں دیکھ سکتا، حضرت موسیٰ کے درخواست پر خدا کا جواب ۔
مطلب: ہر چند کہ میرا دل مختصر سا ہے لیکن اس میں جو تمنا موجزن ہے وہ یہی کہ اپنے محبوب سے بار بار ملاقات کے وعدے وعید اور پھر ان سے انکار کا تذکرہ سنوں ۔
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل چراغِ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
معانی: کوئی دم کا مہماں : مراد فانی انسان ۔ اہلِ محفل: دنیا والے ۔ چراغ سحر: صبح سویرے کا چراغ جسے کسی وقت بجھایا جا سکتا ہے ۔
مطلب: اے دنیا والو! میں تو اب صرف چند گھڑیوں کا مہمان ہوں ۔ میری کیفیت تو صبح کے چراغ کی مانند ہے جو کسی لمحے بھی بجھ سکتا ہے ۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں
معانی: بے ادب: گستاخ ۔
مطلب: اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میں تو اس قدر منہ پھٹ واقع ہوا ہوں کہ جو باتیں دوسروں سے چھپا کر رکھنے کی ہوتی ہیں ان کو بھی بھری بزم میں منکشف کر دیا یقینا یہ عمل ایک جرم کے مترادف ہے ۔ مجھے اس کی سزا ملے تو بے شک میں یہ سزا بھگتنے کو ہر طرح سے تیار ہوں ۔