Please wait..

(5)
(لندن میں لکھے گئے)

 
تو ابھی رہ گزر میں ہے قیدِ مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر

معانی: رہ گزر: راستہ سے گزرنے والا ۔ قیدِ مقام: ٹھہرنے کی قید ۔
مطلب: ان اشعار میں انھوں نے اپنے خصوصی انداز میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تم لوگ تو ابھی تک نا آشنائے منزل ہو ۔ ابھی تک راستے میں ہی بھٹک رہے ہو ۔ لہذا اگر اپنے مقصد کی تکمیل کرتے ہوئے منزل تک پہنچنے کے خواہاں ہو تو پھر یہ مصر و حجاز اور ایران و شام کی حدود سے آگے بڑھنا ہو گا کہ مسلمان کے لیے یہ جغرافیائی حدیں بے معنی شے ہیں ۔ عملاً یہ جغرافیائی حدود کا تصور تو یہاں یورپی تہذیب کی درآمدات میں سے ہے جب کہ مسلمان کی تو ایک ہی قومیت ہے وہ خواہ عرب میں بودوباش رکھتا ہو یا عجم ! بہرحال مسلمان ہے اور اس کی قومیت مشترک ہے ۔

 
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر

معانی: حور وخیام: بہشتی حسینائیں اور ان کے خیمے ۔ بادہ و جام: شراب اور شراب کا پیالہ ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جو شخص سیرت و کردار کے حوالے سے بے غرض اور حرص و ہوس سے دور ہو گا خداوند قدوس اس کو خصوصی طور پر اس عمل کی جزا دیتا ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ بہشت تک رسائی کے لیے حور و غلماں اور شراب طہورہ کے خیال سے بے نیاز ہو کر نیک نیتی کے ساتھ اپنے عمل میں مصروف رہا جائے کہ اس نوعیت کا عمل تو ہر قسم کی جزا سے بلند ہے ۔

 
گرچہ ہے دل کشا بہت حسنِ فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر

معانی:حسنِ فرنگ: انگریزی چمک دمک ۔ طائرک بلند بال: چھوٹا پرندہ جو بلند اڑتا ہے ۔ دانہ و دام: دانہ اور جال، یعنی ظاہری چمک دمک ۔
مطلب: ہر چند کہ مغرب کا حسن اور وہاں کی تہذیب ظاہری سطح پر مسرت بخش ہوتی ہے لیکن یہ چیزیں تو عملاً ایک جال کے مانند ہیں جس میں بھولے بھالے انسانوں کو پھانسا جاتا ہے ۔ یہاں بھی اقبال مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تمہاری سیرت و کردار تو بڑے بلند مقاصد کے آئینہ دار ہیں لہذا تمہارے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ مغرب کے حسن برہنہ اور تہذیب سے دور رہو ۔

 
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشادِ شرق و غرب
تیغِ ہلال کی طرح عیشِ نیام سے گزر

معانی: کوہ شگاف: پہاڑ توڑنے کو پھاڑنے والی ۔ ضرب: چوٹ ۔ کشاد: کھولنا ۔ تیغ: تلوار ۔ ہلال: پہلے دن کا چاند ۔ عیشِ نیام: غلاف کا عیش، یعنی آرام طلبی ۔
مطلب: تیری ضرب لا الٰہ تو پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور تجھ میں ایسی صلاحیت بھی موجود ہے جو مشرق و مغرب کے عقدے کھول دے اور ان کے مسائل حل کر دے ۔ اے مسلمان! تیرے لیے لازم ہے کہ جس طرح ہلالی تیغ دشمن کی صفوں کو کاٹتی چلی جاتی ہے اسی طرح اپنے عمل سے تمام معاملات کو سلجھا کر رکھ دے ۔

 
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر

معانی: بے حضور: غیر حاضر ۔ بے سرور: بے لذت ۔ گزر: چھوڑ دے ۔
مطلب: اس میں شک نہیں کہ اس شعر میں بھی اقبال مسلمان سے مخاطب ہیں لیکن یہاں ان کا لہجہ خاصا تند و تیز ہے ۔ فرماتے ہیں کہ تو جس امام کی قیادت میں خدائے عزوجل کے حضور میں سجدہ ریز ہو رہا ہے اس امام کو تو خود بھی حضوری کا درجہ حاصل نہیں کہ اس کی نیت اور عمل منافقانہ ہے ۔ اسی سبب تیری نماز بھی بے کیف ہو کر رہ گئی ہے چنانچہ تیرے لیے مناسب یہی ہے کہ ایسے بے کیف سجدوں اور اس طرح کے بے عمل اور منافق امام کی قیادت سے دستبردار ہو جا ۔ مراد یہ ہے کہ جب راہ نما خود ہی بے عمل اور بد دیانت ہوں تو ایسے لوگوں کی قیادت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے گریز کرنا چاہیے ۔