فقر
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
معانی: اک فقر: بندگی کا ایک مقام ۔ صیاد: شکار ۔ نخچیری: شکار کرنا ۔ اسرارِ جہانگیری ۔ بادشاہی کے راز ۔
مطلب: تین اشعار پر مشتمل اس انتہائی مختصر نظم میں نہ صرف یہ کہ فقر جیسے اہم مسئلے کو چھیڑا ہے بلکہ اس کا تقابلی جائزہ پیش کیاکر کے فقر کی حقیقی نوعیت سے بھی آگاہی بخشی ہے ۔ اقبال کے نزدیک فقر کو ان کے عہد میں پیش کیا گیاوہ مسکینی ، فقیری اور مفلسی کے حوالے سے پیش کیا گیا جب کہ اسلامی نقطہ نظر سے فقر اس سے مختلف ہے جس کو اختیار کرنے سے کسی بھی فرد کا مرتبہ بلند ہوتا ہے ملاحظہ کیجیے ۔ اس شعر میں ایک فقر جو اقوام میں برسر عمل ہے وہ تو ایسا فقر ہے جو شکاری میں خود شکار ہونے کا جذبہ پیدا کرتا ہے ۔ اس انداز کے فقر سے غالباً اقبال کی مراد رہبانیت ہے ۔ اس کے بالمقابل حقیقی فقر وہ ہے جس سے دنیا کو مسخر اور زیر کرنے کے بھید انسان پر کھلتے ہیں ۔
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
معانی: مسکینی: بے چارگی ۔ دلگیری: مایوسی ۔ اکسیری: علاج، دوا ۔
مطلب: پہلے قسم کا فقر تو قوموں کے عروج و ارتقاَ کے لیے زہر قاتل ہے اس کے برعکس وہ ان میں بے چارگی اور غم انگیز کیفیت جنم دیتا ہے ۔ جب کہ حقیقی فقر تو مٹی میں بھی کیمیا کی تاثیر پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے توضیح یوں بھی ہو سکتی ہے ۔ ایسا فقر مٹی کو سونا نہیں بناتا بلکہ اکسیر کے درجے تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ جس شے سے مس ہو جائے وہ سونے میں تبدیل ہو جائے ۔
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری میراثِ مسلمانی، سرمایہَ شبیری
معانی: میری: سرداری ۔ میراث: ورثہ ۔ سرمایہَ شبیری: حضرت امام حسین کی دولت یعنی اپنی خودداری اور سچائی پر قائم رہنا ۔
مطلب: چنانچہ یہی فقر جو حقیقی ہے نواسہَ رسول مقبول حضرت امام حسین کے کردار کا جزو بنا ۔ اسی فقر میں سربلندی اور برتری ہے اور یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ امام حسین کا یہ فقر ہی فی الواقع ان کا سرمایہ حیات تھا ۔ یہی فقر مسلمانوں کو ورثے میں ملا ہے اور ان کے لیے موجب فخر ہے ۔