رباعی (21)
چمن میں رختِ گل شبنم سے تر ہے سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے
مطلب: کائنات میں اگرچہ وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی مدد اور تعاون سے ارتقاء کی منزلیں طے کی جا سکتی ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں نہ وہ قوت عمل موجود ہے نا ہی وہ عزم و حوصلہ جو کسی انقلاب کے لیے ممدومددگار ثابت ہو سکے اور اس کا پیش خیمہ بن سکے ۔
رباعی (22)
خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے، چراغِ رہ گزر ہے
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے
مطلب: عقل و دانش کے طفیل انسان کو بصیرت مل جاتی ہے جب کہ عقل و دانش تو ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو راستے کو دکھاتا ہے اور اس کو منر کر دیتا ہے ۔ لیکن عقل و دانش جس کو چراغ رہگذر سے تعبیر کیا گیا ہے انسان کی باطنی اور داخلی کیفیت سے بہرور نہیں ہوتی اسی لیے وہ اس کی تکمیل کا باعث نہیں بن سکتی ۔
رباعی (23)
جوانوں کو مری آہِ سحر دے پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نورِ بصیرت عام کر دے
مطلب: اس رباعی میں اقبال خدائے ذوالجلال کی بارگاہ میں د عاگو ہیں کہ نوجوانان ملت کو وہ آہ سحر عطا کر جس سے میں خود بہرہور ہوں ۔ ہر چند کہ اپنی فطرت میں یہ بلند پرواز شاہیں کے مانند ہیں تاہم ان کا المیہ یہ ہے کہ اپنی بے عملی کے سبب ان میں آگے بڑھنے کی قوت باقی نہیں رہی چنانچہ میری آرزو اور تمنا یہی ہے کہ تو نے مجھے جو بصیرت کا نور بخشا ہے وہ عام لوگوں خصوصاً نوجوانوں تک پہنچا دے ۔
رباعی (24)
تری دنیا جہانِ مرغ و ماہی مری دنیا فغانِ صبحگاہی
تری دنیا میں ، میں محکوم و مجبور مری دنیا میں تیری پادشاہی
مطلب: اے رب دو جہاں تیری دنیا تو چرند پرند اور ہر نوع کی زندہ اشیاء سے عبارت ہے جب کہ میری دنیا میں تو آہ و زاری کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ یہ ایک سادہ سی رباعی ہے جس میں خالق حقیقی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہمارے لیے ترقی کے وسائل پیدا کر دے اس لیے کہ تو نے تو ہمیں اس دنیا میں جس کو خود تو نے تخلیق کیا ہے میں ایک محکوم و مجبور انسان کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوں جب کہ میری اپنی دنیا پر تیرا مکمل تسلط ہے ۔
رباعی (25)
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
مطلب: اے مولا! یہ تیرا کرم ہے کہ مجھ کو تمام صلاحیتوں سے نوازا ہے اور صاحب اقتدار لوگوں کی محکومی اور غلامی سے بچا لیا ہے ۔ ہر چند کہ اپنی فطرت کے مطابق میں دنیا کے جملہ مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اس کے باوجود جام جمشید کی طرح کسی کا آلہ کار نہیں ہوں ۔