(38)
یہ پیرانِ کلیسا و حرم! اے وائے مجبوری صلہ ان کی کدوکاوش کا ہے سینوں کی بے نوری
معانی: کلیسا: گرجا ۔ حرم: کعبہ ۔ کدوکاوش: کوشش ۔
مطلب: اقبال نے اس شعر میں کلیسا اور حرم کے پیشوا کی بے عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا سینہ چونکہ عشق الہٰی سے خالی ہے اس لیے انھوں نے مذہب کے حوالے سے جو بھی کوششیں کیں وہ بیکار گئیں ۔ مراد یہ کہ ان لوگوں نے اشاعت دین کا جو طریقہ اختیار کیا وہ رائیگاں گیا ۔ اس لیے کہ یہ لوگ خود دین سے مخلص نہ تھے ۔
یقیں پیدا کر اے ناداں ! یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
معانی: فغفوری: بادشاہت ۔
مطلب: یقین کامل کے بغیر درویشی بھی ہاتھ نہیں آتی ۔ اے بے خبر! یاد رکھ کہ یقین کامل ہی سے بادشاہی کا حصول ممکن ہے ۔
کبھی حیرت، کبھی مستی، کبھی آہِ سحر گاہی بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا دردِ مہجوری
معانی: دردِ مہجوری: بچھڑنے کا درد ۔
مطلب: محبوب کے عشق میں انسان کے سامنے کیسے کیسے مرحلے آتے ہیں ۔ کبھی حیرت اور مایوسی اس کا مقدر بن جاتی ہے کبھی وصال محبوب سے مست ہو جاتا ہے اور کبھی ساری ساری رات جاگ کر ٹھنڈی آہیں بھرتا رہتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل کتنے ہی رنگ بدلتا رہتا ہے ۔
حدِ ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری
مطلب: عشق و مستی کا معاملہ دیکھا جائے تو انسانی فہم سے بالاتر ہے ۔ بات جو سمجھ میں آتی ہے محض اسی قدر کہ محبوب سے دوری کا عمل دل کے لیے موت حیثیت اختیار کر جاتا ہے ۔
وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبورِ پیدائی مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسبابِ مستوری
معانی: مستوری: چھپ جانا ۔
مطلب: محبوب تو اپنے حسن کو ہر نہج پر نمائش کرتا رہتا ہے لیکن میرے پیش نظریہ ہے کہ وہ کسی حد تک حجاب میں رہے ۔
کوئی تقدیر کی منطق کو سمجھ سکتا نہیں ورنہ نہ تھے ترُکانِ عثمانی سے کم ترُکانِ تیموری
معانی: منطق: بات ۔ تُرکانِ عثمانی: ترکی کے باشندے ۔ تُرکانِ تیموری: نسل تیمور کے مغل ۔
مطلب: تقدیر کے معاملات کوئی بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ ترکان عثمانی سے ترکان تیموری یعنی مغل کسی اعتبار سے بھی کم نہ تھے لیکن اول الاذکر نے اپنی عملی جدوجہد اور اتفاق و اتحاد سے چھینا ہوا اقتدار واپس لے لیا جب کہ مغل اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبال آ گیا کیونکر میسر میر و سلطاں کو نہیں شاہین کافوری
معانی: شاہین کافوری: سفید رنگ کا نایاب شاہین ۔
مطلب: حرم کے درویشوں کے ہاتھ اقبال آج نہ جانے کیسے آ گیا ۔ یہ تو سفید رنگ کے شہباز کی مانند ہے جس پر بادشاہوں اور امراء کی دسترس بھی نہیں ہوتی ۔ واضح رہے کہ سفید رنگ کا شہباز انتہائی کمیاب پرندہ ہے جو کسی خوش قسمت انسان کے ہاتھ آ جاتا ہے ۔