حیاتِ ابدی
زندگانی ہے صدف، قطرہَ نیساں ہے خودی وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
معانی: صدف: سیپی ۔ قطرہَ نیساں : ابر بہار کا قطرہ ۔ گہر: موتی ۔
مطلب: اقبال نے آدمی کی زندگی کو سیپ سے تشبیہ دی ہے اور خودی کو اس بادل سے برسنے والے قطرے سے تشبیہ دی ہے جو سیپ کے منہ میں جا کر موتی بن جاتا ہے ۔ جس طرح سیپ موتی کے بغیر ایک بے کار شے ہے اسی طرح آدمی کی زندگی بھی خود شناسی کے بغیر بے کار ہے ۔ خودی انسانی زندگی کے صدف کا موتی ہے ۔ جس طرح وہ صدف صدف کہلانے کے مستحق نہیں جو قطرہ آب کو موتی نہ بنا سکے اسی طرح وہ آدمی ، آدمی یا انسان کہلانے کا حق دار نہیں جو خودی سے خالی ہے ۔
ہو اگر خود نِگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
معانی: خودنگر: خود کو پہچاننے والی ۔ خودگر: خود کو بنانے والی ۔ خود گیر: خود پر قابو پانے والی ۔
مطلب: اگر اے انسان تیری خودی اپنی معرفت رکھتی ہو ، دوسروں سے بے نیاز ہو کر اپنی تربیت خود کرتی ہو اور اپنی ضروریات و احتیاجات میں خود کفیل ہو اور کسی دوسرے کی دست نگر نہ ہو تو یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی نہ مر سکے ۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ تجھ پر ظاہری موت نہیں آئے گی اس کا ذائقہ تو ہر نفس کو چکھنا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مر کر بھی ایک اور طرح کی زندگی کے روپ میں تو زندہ رہے گا ۔ شہداء ، اولیا اور انبیا کی زندگیاں اس پر گواہ ہیں ۔