Please wait..

شاعر

 
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

معانی: گویا: جیسے ۔ اعضا: جمع عضو، جسم کے حصے ۔ منزل صنعت: کاریگری، دستکاری کا ٹھکانا ۔ رہ پیما: راستہ طے کرنےوالے ۔ دست و پائے قوم: مراد ایسے لوگ ، افراد جو جماعتی کام انجام دینے والے ہیں ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے انتہائی جاندار الفاظ میں شاعر کی اہمیت کا ذکر کیا ہے ۔ ان کے مطابق قوم کو اگر ایک جسم تصور کر لیا جائے تو افراد کو اس کے اعضاء سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ ان افراد میں جو لوگ صنعت و حرفت کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں وہ عملاً قوم کے دست و بازو کی حیثیت کی حامل ہیں ۔

 
محفلِ نظم حکومت، چہرہَ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدہَ بینائے قوم

معانی: محفلِ نظم حکومت: حکومت کے انتظامی امور چلانے والے ۔ چہرہ زیبا: خوبصورت چہرہ ۔ رنگیں نوا: مراد دل پر اچھا اثر کرنے والے شعر کہنے والا ۔ دیدہَ بینا بصیرت والی نگاہ ۔
مطلب: اس کے علاوہ جو لوگ نظم و نسق کے ذمہ دار ہوتے ہوئے نظام حکومت چلاتے ہیں وہ قوم کے چہرے پر حسن و خوبصورتی کے مظہر ہوتے ہیں ۔ مراد یہ کہ جس طرح کسی شخص کی خوبصورتی کا اندازہ اس کے چہرے کو دیکھ کر ہوتا ہے اسی طرح کسی قوم کی خوبیوں کو برسر اقتدار طبقے کی صلاحیت اور کردار سے پرکھا جا سکتا ہے ۔ تاہم شاعر کی حیثیت ان سب سے بلند ہے کہ وہ قوم کے لیے دیدہَ بینا کی طرح ہے ۔

 
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

معانی: مبتلائے درد: تکلیف میں گرفتار ۔ ہمدرد: دوسروں کی تکلیف کا احساس رکھنے والی ۔ کس قدر: مراد بہت زیادہ ۔
مطلب: مشاہدے اور تجربے کے مطابق یہ بات بڑے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جسم کے کسی حصے کو بھی تکلیف پہنچے تو اس کا اظہار آنکھ سے ہی ہوتا ہے ۔ مراد یہ کہ اس تکلیف کے سبب آنکھ میں ہی آنسو آ جاتے ہیں ۔ اس امر سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ آنکھ جسم کی کس قدر ہمدرد ہوتی ہے مطلب یہ کہ شاعر کو اگر قوم کی آنکھ تسلیم کر لیا جائے تو پوری قوم کو اسے غم گسار بھی ماننا پڑے گا ۔