باغی مرید
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
مطلب: ان اشعار میں اقبال ان نام نہاد، دنیادار اور بداعمال پیروں کے خلاف ان کے ایک ایسے باغی مرید کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جو ان پیروں کی کرتوتوں سے آگاہ ہو کر بغاوت پر آمادہ ہو گیا ہے ۔ یہ مسئلہ محض کسی ایک مخصوص پیر کا نہیں بلکہ اب تو کم و بیش تمام پیر اپنے حقیقی کردار کو بھلا کر لہو و لعب اور عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ماضی میں یہ لوگ اپنے سادہ دل مریدوں کی ادارت سے جائز و ناجائز مفاد حاصل کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب مرید بھی باشعور اور بیدار ہو گئے ہیں ۔ ردعمل کے طور پر ان میں جو اپنے پیروں کے خلاف بغاوت کا عنصر عور کر آیا ہے ان اشعار میں ان کی سوچ اور باغیانہ ردعمل کا اظہار ہے ۔
چنانچہ باغی مرید کہتا ہے کہ ہم جو شب و روز محنت کر کے ان نام نہاد پیروں پر اپنی کمائی نچھاور کر دیتے ہیں ان کے گھروں میں تو روشنی کے لیے ایک مٹی کا دیا بھی موجود نہیں ہے جب کہ پیروں کے محلات برقی قمقموں سے جگمگا رہے ہیں ۔
شہری ہو دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ مانندِ بتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
مطلب: ہم سادہ لوح مرید خواہ شہری باشندے ہوں یا دیہات کے رہنے والے! عملی سطح پر ہمارا چالاکی اور عیاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا جب کہ ہم لوگ ان پیروں کی اس طرح سے پرستش کرتے ہیں جس طرح یہ لوگ کعبے کے برہمن ہوں اور ہم ان کی اسی طرح پوجا کرنے پر مجبور ہیں جیسے کہ برہمن بتوں کی کرتے ہیں ۔ علامہ نے یہاں کعبے کے برہمن کا استعارہ پیر کے لیے طنزاً باندھا ہے کہ یہ حضرات بھی بتوں کی مانند اپنی پرستش کے خواہاں ہیں ۔
نذرانہ نہیں ، سود ہے پیرانِ حرم کا ہر خرقہَ سالوس کے اندر ہے مہاجن
معانی: نذرانہ: تحفہ ۔ پیرانِ حرم: کعبے کے بزرگ ۔ خرقہَ سالوس: دھوکے کا لباس ۔ مہاجن: ہندو ساہوکار ۔
مطلب: یہ پیر ہم سے جو خراج وصول کرتے ہیں یہ نذرانہ نہیں بلکہ سود کے مانند ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان مکرو فریب کے پتلوں کے اندر کوئی مہاجن چھپا بیٹھا ہے ۔
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
معانی: مسندِ ارشاد: گدی ۔ زاغوں : کووں ۔ تصرف: قبضے میں ۔ نشیمن: آشیانے ۔
مطلب: افسوس ناک امر یہ ہے کہ وعظ و نصیحت کی مسندیں ان ناعاقبت لوگوں کو ورثے میں ملی ہوئی ہیں ۔ یہاں سوائے اس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ عقابوں کے گھونسلے کووں کی کمین گاہ بنے ہوئے ہیں ۔