Please wait..

ہنروانِ ہند

 
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہَ تاریک میں قوموں کے مزار

معانی: ہنروانِ ہند: برصغیر کے فنکار ۔ اندیشہَ تاریک: سیاہ فکر، بھیانک سوچ ۔
مطلب : اس نظم میں علامہ اقبال نے برصغیر کے ادیبوں ، شاعروں ، مصوروں ، موسیقاروں ، سنگ تراشوں اور دوسری قسم کے جملہ اہل فن کے متعلق کہا ہے کہ ان کی تخلیقات میں جو تخیل ہوتا ہے اس سے پڑھنے والے اور دیکھنے والے کے اندر عشق اور مستی کا جوہر ختم ہو جاتا ہے اور اس کے جذبات مردہ اور افسردہ ہو جاتے ہیں ۔ ان ہنرمندوں اور فنکاروں کے خیالات و افکار کی بھیانک تاریکی سے قو میں مر جاتی ہیں اورر وہ زندہ مزاروں کی صورت میں باقی رہ جاتی ہیں ۔

 
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں 
زندگی سے ہُنر ان برہمنوں کا بیزار

معانی: نقش گری: تصویر کشی ۔ صنم خانوں : بت خانوں ۔ برہمن: ہندووَں کا پیشوا، بتوں کو پوجنے والا ۔
مطلب: برصغیر کے ہنر مندوں کی مزید صفت بیان کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہنر سے ایسے بت خانے بناتے ہیں جن میں زندگی کی نہیں موت کی تصویریں آویزاں ہوں اور ان بتوں کے برہمنوں یعنی ان ہنرمندوں کے ہنر سے زندگی بیزار اور موت ان پر فریفتہ نظر آتی ہے ان کے جملہ فن پاروں میں افسردگی پائی جاتی ہے اور زندگی کی کوئی لہر نظر نہیں آتی ۔

 
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار

معانی: چشم آدم: آدمی کی آنکھ ۔ مقامات بلند: اونچے مقامات ۔ خوابیدہ کرتے ہیں سلاتے ہیں ۔
مطلب: مذکورہ بالا شعروں میں جن ہنر مندوں کا ذکر آیا ہے ان پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ان کا کام یہ ہے کہ یہ آدمی کی نگاہوں سے آدمیت اور انسانیت کے اعلیٰ و ارفع مقامات کو چھپاتے ہیں اور ان میں حیوانی و سفلی جذبات بھڑکاتے ہیں ۔ یہ اپنے فن پاروں کے پڑھنے والو اور دیکھنے والوں کے بدنوں کو تو جگا دیتے ہیں اور ان میں حیوانی اور جنسی جذبات و خیالات تو پیدا کر دیتے ہیں لیکن ان کی روحوں کو سلا دیتے ہیں اور انہیں بے روح بدنوں والے آدمی بنا کر چھوڑ دیتے ہیں ۔

 
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

معانی: صورت گر: مصور ۔ اعصاب: عصب کی جمع یعنی رگ اور پٹھے ۔
مطلب: اس آخری شعر میں علامہ نے برصغیر کے مصوروں ، شاعروں اور افسانہ نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایسے فن پارے تخلیق کرتے ہیں جن میں عورت اور اس سے متعلق سفلی جذبات کا ضرور ذکر ہوتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ عورت اور جنسی و سفلی جذبات ان کے رگ و ریشہ میں سما گئے ہیں ۔ اور اس کے سوا انہیں کسی اور موضوع پر سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں اگر ہم دور جدید کی ترقی پسند تحریک کو دیکھیں تو اس سے متعلقہ جملہ فن کاروں کا یہی حال ہے ۔ حتیٰ کہ انھوں نے کارل مارکس کی بے دینی اور فرائیڈ کی جنسیات کو بھی عام کرنے سے پرہیز نہیں کیا ۔