Please wait..

(43)

 
مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے
خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اسرار بھی ہے

معانی: رعنائیِ افکار: سوچ کی زینت و حسن ۔ لذتِ اسرار: راز رکھنے کا مزا ۔
مطلب: اس نظم کے بیشتر اشعار ایک سوالیہ نشان کے مانند نظر آتے ہیں ۔ ان میں اقبال اپنے عہد کی جو صورت حال سے اس کا ذکر بھی اشارتاً کرتے ہیں اور اس سے عہدہ برآ ہونے کا عندیہ بھی دیتے ہیں ۔ پہلے شعر میں کہتے ہیں کہ ان دنوں درسگاہوں میں نہ تو فکر و دانش کے آثار ملتے ہیں اور نہ ہی خانقاہوں میں وہ جوہر نظر آتا ہے جو روحانی تربیت کا باعث ہوا کرتا تھا ۔ مراد یہ ہے کہ یہ دور عملاً منفی اثرات کا حامل ہے اور کسی مرحلے پر بھی اصلاح کی گنجائش نظر نہیں آتی اور یہی اس دور کا المیہ ہے ۔

 
منزلِ رہرواں دُور بھی، دشوار بھی ہے
کوئی اس قافلہ میں قافلہ سالار بھی ہے

معانی: رہرواں : سفر کرنے والے ۔ قافلہ: ملتِ اسلامیہ ۔
مطلب: پہلے شعر کی طرح اس شعر میں بھی کیفیت یہ ہے کہ بے عملی کے سبب اہل قافلہ کی منزل دشوار بھی زیادہ ہو چلی ہے اور اس تک پہنچنے کے آثار بھی نظر نہیں آتے ۔ یعنی زندگی تو حرکت اور عملی جدوجہد سے عبارت ہے ۔ انہی کے ذریعے انسان ترقی کر سکتا ہے اور اپنی منزل مراد کو بھی پا لیتا ہے ۔ اس کے برعکس زندگی حرکت اور عملی جدوجہد سے خالی ہو تو ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے

 
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہَ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدرِکرّار بھی ہے

معا نی: حیدرِ کرار: حضرت علی المرتضی
مطلب: رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جب مسلمانوں کے سامنے خیبر کے ناقابل تسخیر قلعے کا معرکہ درپیش ہوا تو اس کو فتح کرنے کے لیے اس وقت حضرت علی مرتضیٰ جیسے شاہ مرداں اپنی معروف تلوار ذوالفقار کے ساتھ موجود تھے جنھوں نے اپنے دست و بازو سے کام لے کر خیبر کا در اکھاڑ پھینکا اور قلعہ فتح کر لیا ۔ اقبال کہتے ہیں کہ آج بھی دین اور وطن کے مقابل خیبر سے کہیں بڑھ کر معرکہ موجود ہے ۔ اس مرحلے پر اقبال سوال کرتے ہیں کہ کیا کوئی آج کے دور میں حیدرِ کرار جیسا کردار و سیرت پیدا کرسکتا ہے تا کہ اس معرکہ کو سر کیا جا سکے ۔

 
علم کی حد سے پرے بندہَ مومن کے لیے
لذتِ شوق بھی ہے، نعمتِ دیدار بھی ہے

معانی: لذتِ شوق: شوق کا لطف ۔ نعمتِ دیدار: محبوب حقیقی کو دیکھنے کی نعمت ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ علم بے شک اپنے مقام پر بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن مومن کے لیے علم ہی کافی نہیں بلکہ عشق حقیقی بھی درکار ہے ۔

 
پیرِ میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوانِ فرنگ
سُست بنیاد بھی ہے آئنہ دیوار بھی ہے

معانی: سست بنیاد: جلد گر جانے والی بنیاد ۔ آئینہ دیوار: شیشے کی دیوار والا ۔
مطلب: دانش مند لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یورپی تہذیب ہر چند کہ اپنی حدود میں ترقی یافتہ ہے لیکن اس میں تصنع اور بناوٹ نے ہر نوع کی اخلاقیات سے محروم کر کے رکھ دیا ہے ۔ مراد یہ کہ مادی ترقی ہی معاشرے کی تعمیر کے لیے کافی نہیں اس کے لیے روحانی اقدار بھی درکار ہیں ۔