Please wait..

(9)

 
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بہ دم

معانی: نوا: آواز ۔ زیرو بم: بلندی اور پستی ۔ سوزِ دم بہ دم: لگاتار جوش ۔
مطلب: یہ جذبہ عشق ہی ہے جس کے سبب زندگی میں جوش و خروش پیدا ہوتا ہے اور قوت عمل برقرار رہتی ہے ۔ حالانکہ انسان تو محض مٹی کا پتلا ہے جب کہ جذبہ عشق نے اس مٹی کے پتلے میں سوز و گداز اور زندہ رہنے کی خواہش کر جنم دیا ہے ۔

 
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم

معانی: بادِ سحر گاہی کا نم: صبح کی شبنم ۔
مطلب : عشق ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کے دل و دماغ، ضمیر اور روح حتیٰ کہ جسم کے ریشے ریشے میں سما جانے کی اس طرح صلاحیت رکھتا ہے جس طرح صبح کی تازہ اور جاں بخش ہوا سے پیدا شدہ نمی شاخ گل میں سما جاتی ہے ۔

 
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم

معانی: رازق: رزق دینے والا یعنی اللہ تعالیٰ ۔ محتاجِ ملوک: بادشاہوں کا محتاج ۔ گدا: فقیر ۔ دارا و جم: ایران کے دو بادشاہ ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ انسان میں اپنے رزق دینے والے کو شناخت کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ بادشاہوں کا غلام ہو کر رہ جاتا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ اس کے رزاق دراصل بادشاہ ہی ہیں ۔ لیکن جو شخص پیدا کرنے والے کی ذات سے آگاہی رکھتا ہے تو دارا اور جم جیسے فرمانروا بھی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے یعنی اصل چیز ذات الہٰی سے رابطہ ہے اور اس رابطے کا عرفان ہے ۔

 
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

معانی: شہنشاہی: بادشاہی ۔ شکم: پیٹ ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں دل و ضمیر کی آزادی کو شہنشاہی پر بھی ترجیح دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انسان کا دل آزاد ہے تو اس کا مرتبہ شہنشاہوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ اور غیر از خدا رزق کی طلب اس کے لیے بدترین قسم کی غلامی کے مانند ہے ۔ چنانچہ اس ضمن میں خداوند تعالیٰ نے انسان کو اس امر کا اختیار دے دیا ہے کہ وہ اپنی بھلائی کے لیے آزادی کا خواہاں ہے یا غلامی کا ۔

 
اے مسلماں !اپنے دل سے پوچھ مُلّا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم

معانی: ہو گیا خالی حرم: یعنی مسلمان عمل سے محروم ہو گئے ۔
مطلب: مسلمان سے خطاب کرتے ہوئے اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ کسی ملا مولوی کے بجائے خود اپنے دل سے اس امر کی آگاہی حاصل کر کہ حرم کعبہ اب قادر مطلق کے سچے بندوں سے کیوں محروم ہو گیا ہے ۔ اب تو وہاں اکثریت ایسے لوگوں کی موجود ہوتی ہے جن کا کاروبار منافقت ہے