(۱۶)
یا رب! یہ جہانِ گزَراں خوب ہے لیکن کیوں خوار ہیں مردانِ صفا کیش و ہُنرمند
مطلب: بنیادی طور پر بال جبریل کی یہ تخلیق غزل نہیں بلکہ اقبال کے مخصوص اسلوب کی نظمیں اس کے ابتداءی شعر میں علامہ اس کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ یہ دنیا اپنی جگہ خوبصورت اور خوشنما سہی لیکن کیا وجہ ہے کہ یہاں صاف دل اور با کمال ہنر مند موجود ہیں ان کی تذلیل کس لیے ہوتی ہے اور انہیں نچلی سطح کا فرد کیوں سمجھا جاتا ہے؟ یہ سوال اس شعر میں اقبال نے خدا کو مخاطب کر کے اٹھایا ہے۔
گو اس کی خُدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند
مطلب: دوسرے شعر میں اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوءے اقبال کہتے ہیں کہ ہر چند اس دنیا پر سرمایہ دار طبقے کا تسلط اور اجارہ داری قاءم ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے لوگ انگریز کو بھی خداوند کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
تو برگِ گِیاہے ندہی اہلِ خرد را او کِشتِ گُل و لالہ بہ بخشد بخرے چند
مطلب: اقبال یہاں خدا سے گلہ مند ہیں کہ بظاہر تو کمال اور اہل دانش افراد کو گھاس کی ایک پتی سے بھی نہیں نوازا جاتا جب کہ ہندوستان پر مسلط انگریز نے انتہائی احمق اور نالائق افراد کو انتہائی عروج پر چڑھا رکھا ہے ۔
حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گُلگوں مسجد میں دھرا کیا ہے بجز مَوعظہ و پند
معانی: موعظہ: وعظ، نصیحت۔
مطلب: اقبال کا کہنا ہے کہ عیسائیوں کے کلیساءوں میں تو شراب و کباب پیش کیے جاتے ہیں جب کہ عالم اسلام کی مساجد میں خشک قسم کے وعظ و پند اور نصیحتوں کے سوا اور کیا رکھا ہے ۔ بالفاظ دیگر ان مساجد میں عام مسلمانوں کی دلچسپی کا کوئی سامان موجود نہیں اس لیے ان کے ہاں گریز کی کیفیت ملتی ہے ۔
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر تاویل سے قُرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
معانی: پاژند: ژند کی تفسیر، پارسیوں کے عقیدے کے مطابق ژندہ کتاب تھی جو ان کے پیغمبر و رہبر زرتشت پر اتری۔
مطلب: اے رب حقیقی اس میں کسی شک و شبہ کی گنجاءش نہیں کہ تیرے تمام احکام بر حق ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے مفسرین نے قرآنی آیات کو بھی بے جا تاویلات اور پیچیدہ مفاہم سے ان کے معانی اور مطالب کو بے معنی اور غیر فطری مباحث میں الجھا کر ان کی حیثیت ہی بدل دی ہے۔ بالفاظ دگر ان مفسرین نے قرآن کریم کو بھی پاژند بنا کر رکھ دیا ہے۔ عملاً اقبال قرآن کے بیشتر مفسرین سے غیر مطمءن اور ناخوش نظر آتے ہیں۔ ان کے متعدد اشعار اس کا ثبوت ہیں۔
فردوس جو تیرا ہے، کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
معانی: قریہ: گاؤں، بستی۔
مطلب: یارب تو نے اپنے فرمانبردار اور اطاعت بندوں سے بعد وفات جو بہشت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ برحق، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بہشت کو آج تک کسی نے بھی نہیں دیکھا جب کہ افرنگیوں کا ہر قصبہ و شہر بہشت کی مانند آراستہ ہے اور جو لوگ محض ظاہری خوبصورتی کے قائل ہیں وہ ان سے متاثر کیوں نہیں ہوں گے؟
مُدّت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند
مطلب: میری سوچ اور فکر ایک عرصے سے انتشار کا شکار ہے۔ ان کی وسعت اور بلندیوں کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا نا ہی ان سے استفادہ کیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تو اب میرے خیالات کو چاند کے غاروں میں مقفل کر دے۔
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر مَلکوتی خاکی ہُوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
مطلب: اس حوالے سے اقبال اپنے افکار کے بارے میں یوں گویا ہیں کہ فطرت نے مجھے وہ جوہر عطا کیے ہیں جو فرشتوں میں ہوتے ہیں حالانکہ میری تخلیق تو خاک سے ہوئی ہے اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا اس خاکی دنیا سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے ۔
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
مطلب: میں تو ایسا درویش ہوں جس کا تعلق نہ مشرق سے ہے نا ہی مغرب سے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا وطن نہ تو دلی نہ اصفہان اور نا ہی سمرقند ہے بلکہ تیرے عشق نے مجھے ساری دنیا سے بے تعلق کر کے رکھ دیا ہے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند
مطلب: خدایا میں تو سیدھی سچی بات اور کھری بات کرنے کا عادی ہوں۔ وہی میرا قول ہوتا ہے جسے حق پر مبنی سمجھتا ہوں۔ یہی سبب ہے کہ نہ تو میں ایسا جعلساز ہوں جس نے مسجد کو اپنی پناگاہ بنا رکھا ہے نا ہی جدید تہذیب کی مکاریوں اور منفقتوں کا قائل ہوں۔ مطلب یہ کہ نا تو ملا کی طرح سے رجعت پسند ہوں نا ہی جدید تہذیب کا حامی کار اور اندھا مقلد ہوں۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مطلب: یہی سبب ہے کہ میری حق گوءی کے سبب اپنے بھی مجھ سے خفا ہیں اور بیگانے لوگ بھی ناخوش ہیں کہ میں زہر کو زہر ہی اور قند کو قند ہی کہنے کا قائل ہوں یعنی ریاکاری اور منافقت کسی مرحلے پر بھی میرے قریب سے نہیں گزری۔
مشکل ہے کہ اک بندہَ حق بین و حق اندیش خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند
معانی: حق بیں : حق دیکھنے والا ۔ حق اندیش: حق سوچنے والا ۔ خاشاک کے تودے: راکھ کے ڈھیر ۔ دماوند: ایک پہاڑ کا نام جو خراسان میں ہے ۔
مطلب: ایک ایسے سچے اور حقیقت پسند انسان کے لیے یہ امر ناممکنات میں سے ہے کہ وہ خس و خاشاک کے ڈھیر کو دماوند پہاڑ سے تشبیہ دے یعنی حقیقت سے روگردانی کرے اس طرح کے کھلے جھوٹ اور فریب کار میں روادار نہیں ہو سکتا ۔
ہوں آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندہَ مومن ہوں ، نہیں دانہَ اسپند
معانی: آتش نمرود: نمرود بادشاہ کی آگ ۔ دانہَ اسپند: ہرمل کا دانہ جسے آگ میں ڈالیں تو چٹختا ہے ۔
مطلب: جس طرح حضرت ابراہیم نے نمرود کی آگ میں بھی خود کو ثابت قدم رکھا تھا یہی کیفیت میری ہے کہ زمانے کی ابتلاؤں کا بھی بڑے عزم و استقلال سے مقابلہ کر رہا ہوں ۔ اس لیے کہ میں بندہَ مومن ہوں اور کالا دانہ نہیں جسے کمزور عقیدہ خواتیں ٹونے ٹوٹکے کے لیے آگ میں پھینکتی ہیں اور وہ بلاتاخیر چٹخ جاتا ہے میں تو ایسا پیکر استقامت ہوں جو ہر چھوٹی بڑی مصیبت کو برداشت کرنے کا اہل ہوتا ہوں ۔
پُر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
معانی: نکو بین: نیک دیکھنے والا ۔ کم آزار: کسی کو تکلیف نہ دینے والا ۔ تہی کیسہ: خالی جیب ۔
مطلب: میرا کردار یہ ہوتا ہے کہ دل و سوز و گداز سے لبریز ہے ۔ انسان کی خوبیاں دیکھتا ہوں عیب تلاش نہیں کرتا نا ہی کسی کے لیے باعثِ آزار ہوں ۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام انا کے باوجود آزاد ہوں اور خود کو پابند قفس بھی محسوس کرتا ہوں اور مال و زر سے محرومی کے باوجود مطمئن اور مسرور ہوں ۔
ہر حال میں میرا دلِ بے قید ہے خُرّم کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوقِ شکر خند
معانی: خرم: خوش باش ۔ ذوقِ شکر خند: میٹھی ہنسی کا ذوق ۔
مطلب: کتنی ہی مشکلات و مصائب ہوں میرا دل تو ہر حال میں مطمئن و مسرور رہتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ کوئی کلی کے لبوں سے مسکراہٹ نہیں چھین سکتا کہ یہ تو ایک فطری صلاحیت کی مظہر ہے ۔
چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال کرتا کوئی اس بندہَ گستاخ کا منہ بند
معانی: حضرتِ یزداں : مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ۔ بندہَ گستاخ: گستاخی کرنے والا شخص ۔ منہ بند: خاموش کرنا ۔
مطلب: اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ یزداں کے حضور میں بھی میں خاموش نہ رہ سکا بلکہ بڑی بے باکی اور صاف گوئی کے ساتھ اپنی معروضات پیش کر دیں ۔ اس جسارت کو بے شک گستاخی پر محمول کیا جاۓ اور اسکے لیے جو سزا کوئی وہ بصد احترام قبول! لیکن یہ بھی تو فرض وفاداری ہے کہ محبوب کے روبرو دل کھول کر رکھ دیا جائے ۔