Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۱۹)

 
نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے جو محتاجِ مہر و ماہ نہیں

معانی: مہر و ماہ: سورج اور چاند ۔ محتاج: کسی کی احتیاج یا ضرورت رکھنے والی ۔ نگاہ: نظر ۔
مطلب: آدمی کی نظر جس کا تعلق ظاہری آنکھوں سے ہے روشنی کے بغیر کچھ نہیں دیکھ سکتی اور اس کا دیکھنا چیزوں میں تمیز کرتا ہے کہ یہ فلاں شے ہے اور یہ فلاں چیز نہیں ہے ۔ یہ فلاں رنگ ہے یا یہ فلاں رنگ نہیں ہے ۔ شاعر کے نزدیک یہ نظر جو سرخ اور زرد رنگوں میں تمیز کرنے والی ہے حقیقی نگاہ نہیں ہے ۔ حقیقی نگاہ وہ ہے جو سورج اور چاند کی روشنی کی محتاج نہیں اور اس کے بغیر ہی صرف اشیا ہی کو نہیں بلکہ اشیا کی حقیقت تک کو دیکھ لیتی ہے ۔ یہ آنکھ درویشی مسلک کے لوگوں کے پاس اپنے اندر ہوتی ہے ۔ شاعر اس نگاہ کو پیدا کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔

 
فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن
قدم اٹھا! یہ مقام انتہائے راہ نہیں

معانی: فرنگ: انگریز، یورپ والے ۔ انتہائے راہ: راہ کی آخری منزل ۔
مطلب: اہل مغرب سائنس کے کرشمات کے ذریعے چاند اور سیاروں تک پہنچ گئے ہیں ۔ یہ سب کچھ عالم زمان و مکان کے اندر ہوا ہے ۔ اس سب کچھ تک رسائی ہر کسی کے لیے ممکن ہے لیکن ان ستاروں سے آگے بھی ایک جہان ہے جسے لا مکان کہتے ہیں ۔ جس میں فاصلے اور سفر کی کوئی حد نہیں ہے ۔ مومن زمان و مکان کی دنیا تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اس ستاروں کے جہان سے آگے جو جہان ہے وہاں تک کا سفر کرتا ہے اور وہاں کے عجائبات سے آشنا ہوتا ہے ۔

 
کھلے ہیں سب کے لیے غربیوں کے میخانے
علومِ تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں

معانی: غربیوں کے میخانے: مغرب کے شراب خانے ۔ علوم تازہ: نئے علم ۔ سرمستیاں : مست ہونا ۔
مطلب: یورپ والوں نے اپنے علوم و فنون اور افکار و خیالات کے شراب خانے سب کے لیے کھول رکھے ہیں تا کہ ان کی شراب ہر کوئی پی سکے ۔ اے مخاطب علوم و افکار اور سائنسی و ایجادات کے ان شراب خانوں کی شراب تو بھی پی اور ترقی زمانہ حاضر میں تو بھی شامل ہو لیکن شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی روایات کو نہ بھولے جیسا کہ اگلے شعر میں ہے

 
اسی سرور میں پوشیدہ موت بھی ہے تری
ترے بدن میں اگر سوز لا الٰہ نہیں 

معانی: سرور: مستی، نشہ ۔ پوشیدہ: چھپا ہوا ۔ سوز لا الہ: کلمہ لا الہ الا اللہ کا سوز یا حرارت یا تپش ، توحید کی حرارت ۔
مطلب: علوم مغربی سے فائدہ ضرور اٹھا اور اس سے جو مستی و فائدے تجھے حاصل ہوتے ہیں ان کا مزہ لے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تو جس کلمہ توحید کی شہادت دیتا ہے اس کو نہ بھول ۔ یعنی اپنے دین اور اخلاق کی روایات سے الگ نہ ہو ۔ اگر ایسا نہیں تو مغرب کے علم تیری انسانی اور مسلمانی اقدار کی موت کا سبب بنیں گے ظاہری حیات درست ہو جائے تو الگ بات ہے ۔

 
سنیں گے میری صدا خانزادگانِ کبیر
گلیم پوش ہوں میں ، صاحبِ کلاہ نہیں

معانی: صدا: آواز ۔ خانہ زادگان کبیر: سرداروں اور امیروں کے گھر پیدا ہونے والے ۔ گلیم پوش: گدڑی پوش، درویش ۔ صاحب کلاہ: ٹوپی والا، تاج والا یا امیر، بادشاہ ۔
مطلب: محراب گل کہتا ہے کہ میں تو ایک گدڑی پوش درویش ہوں ۔ امیر یا تاج پہننے والا نہیں ہوں ۔ میں نے جو پیغام دیا ہے کیا اس کی آواز کو امیروں اور سرداروں کے گھروں میں پیدا ہونے والے بھی سنیں گے اس سوالیہ انداز میں غالباً نفی کا پہلو موجود ہے کہ یہ لوگ ایک غریب کی آواز پر کیسے اور کیو ں کان دھریں گے اور جب تک افغان قبیلوں کے سردار اور وڈیرے اس فقیر کی آواز سن کر اس کے پیغام پر کان نہیں دھریں گے اور خود کو تبدیل نہیں کریں گے عام افغانوں کی قسمت نہیں بدلے گی ۔