(۹)
مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو پلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ھو
معانی: ساقی: اللہ تعالیٰ ۔ من و تو: میرا تیرا یعنی ہم دونوں ایک ہیں ۔ مئے لا الہ الا ہو: کلمہ طیبہ کا انعام یعنی شراب توحید ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ پالنے والے کے حسب ارشاد من و تو کا فرق مٹا دیا ہے ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ خدا کے سوا عبادت کے لائق اور کوئی فرد نہیں ہے اور اسی کے سبب میں اور تو کا فرق مٹا کر کوئی امتیاز باقی نہیں رکھا گیا ۔
نہ مے، نہ شعر، نہ ساقی، نہ شورِ چنگ و رباب سکوتِ کوہ و لبِ جوے و لالہَ خود رُو
معانی: مے: شراب ۔ ساقی: پلانے والا ۔ شورِ چنگ و رباب: راگ رنگ کا شور ۔ سکوت: خموشی ۔ کوہ : پہاڑ ۔ لب جو: ندی کنارے ۔ لالہَ خودرو: قدرتی اگا ہوا لالہ کا پھول ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ مجھے نہ تو شعر کی ضرورت ہے نہ شراب کی، نا ہی ساقی کی اور نا ہی ساز و نغمہ کی اس کے برعکس میں تو پہاڑ کے دامن کا سکوت ندی کے کنارا اور اس پر اگے ہوئے خودرو لالے کے پھولوں کا خواہاں ہوں کہ یہی وہ اشیاَ ہیں جو میرے قلب و روح کے لیے باعث سکو ن و اطمینان ہو سکتی ہیں ۔
گدائے مے کدہ کی شانِ بے نیازی دیکھ پہنچ کے چشمہَ حیواں پہ توڑتا ہے سبو
معانی: گدائے میکدہ: میکدے کا فقیر ۔ بے نیازی: بے پروائی ۔ چشمہَ حیواں : دائمی زندگی دینے والا پانی کا چشمہ ۔ سبو: پیالہ ۔
مطلب: یہاں اقبال کا کہنا ہے کہ میں ایک ایسا درویش ہوں جس کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ آب حیات کے چشمے پر پہنچ کر بھی اس کا ایک قطرہ پینے سے بھی اجتناب کرتا ہے اور اس کے جملہ لوازمات سے بھی بیگانہ بن چکا ہے ۔
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو
معانی: سبوچہ: چھوٹا سا پیالہ ۔ غنیمت: جو مل جائے اس پر کفایت کرنا ۔ خالی ہیں صوفیوں کے کدو: صوفی لوگ بھی علم سے خالی ہیں ۔ کدو: برتن ۔
مطلب: اس عہد کم سواد میں تو میری محدود فکر سے پیدا ہونے والی روشنی کو ہی غنیمت سمجھ کہ اس عہد کے اہل صفا تو علم وہنر کی روشنی سے محروم و بیگانہ ہو چکے ہیں بالفاظ دگر یہ عہد شعور سے خالی ہو گیا ہے ۔
میں نو نیاز ہوں ، مجھ سے حجاب ہی اولیٰ کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو
معانی: نو نیاز: نیا مرید ۔ حجاب: پردہ ۔ اولیٰ: بہتر ہے ۔ نگاہ بے قابو: نگاہ پرقابو نہیں ۔
مطلب: علامہ اقبال اس شعر میں عشق الہٰی کے اس ابتدائی مرحلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ایک نیاز مند قربت خدا اور اس کے جلوے کی تمنا کر سکے اس لیے کہ ایسے میں چاہنے والے کی نگاہ بھی دل سے زیادہ مضطرب اور بے قرار ہوتی ہے جس پر قابو پانا محال ہوتا ہے ۔ اس شعر میں اقبال نے عشق الہٰی کے ابتدائی ایام کی اضطرابی کیفیت کی جانب اشارہ کیا ہے ۔
اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اس کا صفائے پاکیِ طینت سے ہے گہر کا وضو
معانی: بحر: سمندر ۔ موجوں : لہروں ۔ پاکی طینت: فطرت کی پاکبازی ۔ گہر: موتی ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ موتی کا اصل مقام سمندر میں ہوتا ہے جہاں ہر لمحے اس کا واسطہ سمندر کے پانی سے ہوتا ہے اس کے باوجود اس کی فطرت کی پاکیزگی ہی اسے مصفا بناتی ہے ۔ اس شعر میں اقبال کا اشارہ اس حقیقت کی جانب ہے کہ انسان کو کتنا ہی اچھا ماحول ملے کہیں اس کی فطرت میں موجود پاکیزگی ہی اس کی عظمت و صفا کا سبب بنتی ہے ۔
جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو
معانی: جمیل: خوبصورت ۔ گل و لالہ فیض: گلاب اور لالے کے پھول اس کی عطا سے خوبصورت ہیں ۔
مطلب: یہ ایک خوبصورت اور باصلاحیت شاعر کی صلاحیتوں کا کمال ہے کہ جب وہ اپنے اشعار میں پھولوں کا ذکر کرتا ہے تو اس کے تخلیقی فیض کے سبب یہ پھول بھی زیادہ شاداب و خوش رنگ نظر آتے ہیں ۔