معراج
دے ولولہَ شوق جسے لذتِ پرواز کر سکتا ہے وہ ذرّہ مَہ و مہر کو تاراج
معانی: معراج: وہ واقعہ جو حضرت محمد مصطفی کو شب معراج میں پیش آیا اور آپ ﷺ اپنے گھر سے آسمان اور عرش اور نہ جانے کہاں کہاں کی سیر کر کے مختصر سے وقفے میں واپس بھی آ گئے تھے ۔ ولولہ: جذبہ ۔ لذتِ پرواز: اڑنے کا مزا ۔ مہ و مہر: چاند اور سورج ۔ تاراج: تباہ و برباد کرنا ۔
مطلب: یہاں علامہ معراج کے واقعہ کی تفصیل میں نہیں گئے بلکہ بے یقینوں کو یقین کی دولت سے مالامال کرنے کے لیے کچھ گُر بیان کر رہے ہیں جن سے نتیجہ نکلتا ہے کہ واقعہ معراج واقعی پیش آیا تھا ۔ اس پہلے شعر میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک ذرہ بھی ارادہ کر لے کہ وہ پرواز کرے گا اور اس کے پیچھے اس کا شوق اور ولولہ بھی کارفرما ہو تو وہ ذرہ چاند اور سورج کو مسخر کر سکتا ہے ۔
مشکل نہیں یارانِ چمن! معرکہَ باز پُر سوز اگر ہو نفسِ سینہَ درّاج
معانی: معرکہَ باز: باز کا شکار ۔ پُرسوز: جوش والا ۔ درّاج: تیتر ۔
مطلب: پہلے شعر میں جو کچھ علامہ نے کہا ہے اس کو مزید تقویت بخشنے کے لیے مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تیتر کا سینہ اپنے اندر پرسوز حرارت بھرا سانس رکھتا ہو تو اس کے لیے باز سے مقابلہ کرنا یا اس سے جنگ کرنا مشکل نہیں ہوتا ۔ مراد یہ ہے کہ عشق معمولی طاقت والی شے کو بھی طاقت ور بنا دیتا ہے اور اعلیٰ مقامات تک پہنچا دیتا ہے ۔
ناوک ہے مسلماں ! ہدف اس کا ہے ثریا ہے سرِ سراپردہَ جاں نکتہَ معراج
معانی: ناوک: تیر ۔ ہدف: وہ مقام جو پہلے سے مقرر کر لیا جائے ۔ سِر: بھید ۔ سراپردہَ جاں : روح کے اندر کا بھید، باطنی دنیا کے راز ۔
مطلب: مسلمان کو اگر تیر سمجھو تو نشانہ اس کا آسمان کی بلندی پر ثریا (ستاروں کا ایک جھرمٹ) ہے ۔ معراج کے واقعہ کے اندر جو باریک بات یا رمز چھپی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ معراج بندہ مومن کی جان کے خلوت خانے کا بھید ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم ﷺ شب معراج بشر ہوتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے کی سیر کر آئے اسی طرح مسلمان بھی اگر خدا کا صحیح بندہ بن جائے تو وہ بھی آسمانوں کی تسخیر کر سکتا ہے ۔ واقعہ معراج ہمیں یہ بھید بتا رہا ہے اور ہم پر یہ بات آشکارا کر رہا ہے کہ جو مسلمان بھی اللہ کا بندہ بن کر اپنے اندر ولولہ شوق پیدا کرے گا وہ تسخیر کائنات کا موجب بن جائے گا ۔
تو معنیِ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مدو جزر ابھی چاند کا محتاج
معانی: معنیِ والنجم: قرآن کی ایک سورت جس میں معراج نبی کے اشارے ہیں ۔ مدوجزر: دریا کا چڑھنا اترنا ۔ چاند کا محتاج: یعنی چاند کے اتار چڑھاوَ سے پانی میں جو اتار چڑھاوَ ہوتا ہے اس کے ماتحت ۔
مطلب: علامہ نے یہاں مسلمان کو اس کی اس غلطی کا احساس دلایا ہے کہ تو نے سورت والنجم کی آیات کی حقیقتوں کو سمجھا ہی نہیں ۔ جس طرح سمندر میں جوار بھاٹے کا پیدا ہونا چاند کی عروجی کیفیت کا محتاج ہوتا ہے اس طرح تیرا سورۃ النجم کی حقیقت کو پانا تیرے ولولہ شوق اور تیرے عشق کا محتاج ہے جس سے تو آج محروم ہو چکا ہے ۔ سورہ والنجم کو اگر ایمان کی آنکھ سے پڑھا جائے اور عشق کی حقیقت سے سمجھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک بشر نبی کریم ﷺ جو ظاہری اعتبار سے عالم بشریت سے تعلق رکھتے تھے کہاں تک پہنچ گئے ۔ اے مسلمان تو بھی اگر اپنے اندر ایمان اور عشق کی صحیح کیفیت پیدا کرے تو ماہ و مہر اور انجم و سپہر کو بھی تسخیر کر سکتا ہے ۔