(28)
(یورپ میں لکھے گئے)
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ
معانی: حدیثِ رندانہ: شراب نوشوں کی باتیں ۔
مطلب: یہ اشعار بھی بقول اقبال انھوں نے یورپ کے دوران قیام لکھے ہیں ۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ اپنی عقل سے میں فلسفیانہ انداز نظر کو حاصل کیا جب کہ عشق نے وہ طور طریقے سکھائے جو رندوں کے ہوتے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ میں نے عقل اور عشق دونوں سے ہی فیض حاصل کیا ہے ۔ یعنی جوشخص صاحب ادراک ہوتا ہے وہ زندگی کے ہر پہلو سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
نہ بادہ ہے نہ صراحی ، نہ دورِ پیمانہ فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ
معانی: بزمِ جانانہ: معشوق کی محفل ۔
مطلب: ایسا بھی محبوب ہو سکتا ہے جس کی محفل شراب، صراحی اور جام کی گردش کے بغیر محض اس کی نگاہ ناز سے رنگین ہو ۔
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم رازِ درونِ میخانہ
مطلب: میرے نغمے جن منتشر خیالات سے معمور ہوں انہیں شاعری نہ سمجھو کہ میں تو کائنات کے اکثر رازوں سے واقف ہوں اور وہی رازان اشعار کے ذریعے آشکار کر رہا ہوں ۔
کلی کو دیکھ کہ ہے تشنہَ نسیمِ سحر اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ
معانی: تشنہَ نسیمِ سحر: صبح کی ہوا کی خواہش مند ۔
مطلب: میرا دل تو ایک ایسی کلی کے مانند ہے جو پھول بننے کے عمل تک نسیم صبح کی طرح معطر ہو ۔ چنانچہ میں بھی اپنی تکمیل اسی صورت میں کر سکتا ہوں جب عشق حقیقی کا ادراک حاصل کر لوں ۔ مطلب ہے کہ کلی کی طرح میرا دل بھی محبوب کے التفات کے بغیر شگفتہ نہیں ہو سکتا ۔
کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور سب آشنا ہیں یہاں ایک میں ہوں بیگانہ
معانی: غیاب: پوشیدہ ۔ حضور: ظاہر ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ کوئی مجھے اس حقیقت سے باخبر کر دے کہ دنیا میں میرے علاوہ سب لوگ ہی حقیقت شناس ہیں ۔ صرف میں ہی حقیقت سے بیگانہ ہوں ۔ نہ جانے یہ محبوب کی بارگاہ میں باریابی کا اثر ہے یا وہاں تک رسائی نہ ہونے سے محرومی کا ۔
فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہر جاؤں مرے جنوں کو سنبھالے اگر یہ ویرانہ
مطلب: یورپ میں شاید چند دن اور قیام کر لیتا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہاں ایسا ماحول موجود نہیں جس میں میرا نقطہ نظر سمجھا جا سکے ۔
مقامِ عقل سے آساں گزر گیا اقبال مقامِ شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ
معانی: فرزانہ: صاحبِ عقل ۔
مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ عقل کی منزل سے تو میں با آسانی گزر گیا لیکن مقام شوق سے گزرتے ہوئے بے شمار رکاوٹیں آئیں ۔ مراد یہ ہے کہ عقل و خرد کے مقابلے میں عشق کی منزل بڑی کٹھن ہے ۔