(۱)
گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز، اسے بار بار دیکھ
معانی: گلزار ہست و بود: مراد یہ دنیا ۔ بیگانہ وار: غیروں کی طرح ۔ دیکھنے کی چیز: دل لبھانے والی چیز ۔
مطلب: فنا و بقا سے مربوط دنیا کو اے باشعور انسان اجنبیوں اور بیگانوں کے انداز میں نہ دیکھ یہ تو ایک ایسا عالم رنگ بو ہے جسے بار بار دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس دنیا کے جملہ عناصر پر غور و خوض ہی لطف و مسرت کا سبب بن سکتا ہے ۔
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ دم دے نہ جائے ہستیِ ناپایدار دیکھ
معانی: مثالِ شرار: مراد چنگاری کی طرح تھوڑی زندگی والا ۔ دم دینا: دھوکا دینا ۔ ہستیِ ناپایدار: فانی زندگی ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ دنیا میں تیرا وجود ایک ایسی چنگاری کے مانند ہے جس کی زندگی انتہائی مختصر ہوتی ہے بے شک تیری زندگی بھی بہت کم ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ زندگی تجھے فریب دے جائے اور تو اپنے حقیقی مقاصد کی تکمیل سے محروم رہے ۔
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ، میرا انتظار دیکھ
دید: دیدار ۔ قابل: لائق، مناسب ۔ ذوقِ دید: محبوب کے دیکھنے کا شوق ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے محبوب کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے شک میں تیرے التفات و توجہ کے قابل نہیں ۔ پھر بھی میرے شوق اور انتظار کی کیفیت ایسی نہیں کہ بے اعتنائی برتی جا سکے ۔
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ
معانی: ذوقِ دید: محبوب کے دیکھنے کا شوق ۔ رہ گزر: راستہ ۔ نقش: نشان ۔ کفِ پائے یار: محبوب کے پاؤں کے تلوے ۔
مطلب: اس امر میں شک کی گنجائش نہیں کہ جلوہَ محبوب کا نظارہ کرنے کے مذاق و شوق نے تیری آنکھیں کھلی رکھیں ہیں چنانچہ اگر اب مجھے ہر گلی کوچے میں نقش کف پائے یار نظر آ جائے تو پھر کوئی حیرت کی بات نہیں ۔