Please wait..

افرنگ زدہ (۱)
(یورپی تہذیب میں ڈوبا ہوا)

 
ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

معانی: ترا وجود سراپا: ترا تمام جسم ۔ تجلی: روشنی ۔ افرنگ: مغربی تہذیب و تعلیم ۔
مطلب: اقبال نے اس نظم میں ان مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے جو اہل یورپ کی تہذیب اور ثقافت کا پرتو یا روشنی لیے ہوئے ہیں کہتے ہیں تمہاری ہستی یورپ کے عمارت گروں نے تعمیر کی ہے اور تمہارا اپنا کچھ نہیں ہے ۔ تمہارے ظاہری جسم اور تمہارے باطنی بدن (روح ، افکار) دونوں اہل یورپ کا رنگ لیے ہوئے ہیں ۔

 
مگر یہ پیکرِ خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو زرنگار و بے شمشیر

معانی: پیکرِ خاکی: مٹی کا جسم ۔ نیام: تلوار رکھنے کا غلاف ۔ زرنگاہ: سونے سے بنی ہوئی ۔ بے شمشیر: جس میں کوئی تلوار نہ ہو ۔
مطلب: اقبال اس شخص کو جو اپنی ہستی مٹا کر یورپی تہذیب کے رنگ میں رنگا جا چکا ہے کہتے ہیں ایسا محض اس لیے ہوا ہے کہ تیرا مٹی کا بدن خودی سے خالی ہے ۔ تو ایسی میان کی مانند ہے جو ظاہر میں تو سونے کے نقش و نگار رکھتی ہے لیکن اندر تلوار سے خالی ہوتی ہے ۔ اگر تو خود آگاہ ہوتا تو کبھی یورپ والوں کے پھندے میں نہ پھنستا ۔

(۲)

 
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

معانی: ثابت نہیں : جس کی تصدیق نہیں ۔ خدا کا وجود: یعنی خدا موجود ہے ۔
مطلب: اقبال نے پہلی نظم میں افرنگ زدہ شخص کی ظاہری خرابیوں کا زیادہ ذکر کیا تھا ۔ اس نظم میں اس کی اندرونی فکر کا جائزہ لیا ہے ۔ اس شعر میں یہ کہا ہے کہ اے سر سے پاؤں تک فرنگی تہذیب میں ڈوبے ہوئے انسان تو مادیت کی رو میں بہہ کر خدا کی ہستی کا انکار کر رہا ہے ۔ میرے نزدیک تیرا یہ انکار دراصل تیری اپنی ہستی کا انکار ہے جسے اپنی ہستی کا احساس ہو گا وہ اس ہستی کو کسی خالق کا کرشمہ سمجھتے ہوئے اس خالق سے انکار نہیں کر سکتا ۔

 
وجود کیا ہے فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

معانی: نمود: ظاہر ہونا ۔ بے نمود: پوشیدہ ہے ظاہر ہونے کے قابل نہیں ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ خدا کے وجود سے انکار کرنے والے شخص کو کہہ رہے ہیں کہ کیا تجھے معلوم بھی ہے کہ وجود کیا ہوتا ہے ۔ وجود نام ہے صرف اپنی خودی کے جوہر کو نمایاں کرنے کا ۔ جو وجود خودی کے جوہر سے محروم ہے وہ وجود نہیں کچھ اور ہے اس لیے خدا کے وجود پر بات کرنے سے پہلے تو اپنی فکر کر کیونکہ تیرا جوہر خودی بے نمود یعنی ظاہر نہیں ہے ۔ خودی کی نمود سے پہلے اپنی ہستی تو ثابت کر پھر خدا کے وجود کی بات بھی کر لینا ۔