رباعی (26)
وہی اصلِ مکان و لامکاں ہے مکاں کیا شے ہے اندازِ بیاں ہے
خضر کیوں کر بتائے، کیا بتائے اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
مطلب: یہ ذات خداوندی ہے جو کسی ایک مقام تک محدود نہیں بلکہ ہر مقام پر اس کی موجودگی برحق ہے ۔ ویسے بھی یہ محض انداز بیاں کی بات ہے کہ کسی مقام کا تعین کر سکے ۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر کوئی مچھلی جو پانی میں مستقل بودوباش رکھنے پر مجبور ہے وہ ہی اس امر کا کسی سے استفسار کرے کہ دریا کہاں ہے تو اس پر محض حیرت اور تعجب کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے اور بس ۔
رباعی (27)
کبھی آوارہ و بے خانماں عشق کبھی شاہِ شہاں نوشیرواں عشق
کبھی میداں میں آتا ہے زرہ پوش کبھی عریان و بے تیغ و سناں عشق
مطلب: اس رباعی کا موضوع بھی عشق ہے اور یہاں علامہ نے اس کی مختلف جہتیں بیان کی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جذبہ عشق ابھی تک آوارگی کے علاوہ بے خانماں ہونے کے مراحل سے گزرتا ہے ۔ کبھی نوشیروان عادل کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے ۔ یہی نہیں کہ ایک مرحلہ تو ایسا بھی آتا ہے کہ میدان جنگ میں زرہ پہن کر برآمد ہوتا ہے لیکن جب یہ جذبہ اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تو نہ زرہ پوشی کی ضرورت رہتی ہے نہ مدمقابل کے سامنے اسلحہ کی کہ عشق حقیقی کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
رباعی (28)
کبھی تنہائیِ کوہ و دمن عشق کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
کبھی سرمایہَ محراب و منبر کبھی مولا علی خیبر شکن عشق
مطلب: اس رباعی میں اقبال نے عشق کے جذبے کی لامحدودیت کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ ان کے نزدیک ابھی تک عشق کی آماجگاہ پہاڑوں اور صحراؤں کی وسعت بلندی اور تنہائی ہے ۔ کبھی کسی محفل کا سوز اور سرخوشی عشق کے مظہر ہیں ۔ کبھی یہ عشق جب حقیقت الہٰی سے روشناس ہوتا ہے تو پھر محراب و منبر یعنی مسجد کی محراب اور اس کے منبر کا سرمایہ بن جاتا ہے ۔ اور جب عشق حقیقی کا جذبہ انتہا پر پہنچ جاتا ہے تو مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کے سیرت و کردار میں ڈھل جاتا ہے اور قلعہ خیبر کے ناقابل تسخیر دروازے کو اکھاڑ کر لشکر اسلامی کی کفار پر فتح کا سبب بن جاتا ہے ۔
رباعی (29)
عطا اسلاف کا جذبِ درُوں کر شریکِ زمرہَ لا یحزنوں کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
مطلب: اس رباعی میں اقبال مالک حقیقی سے استدعا کرتے ہیں کہ اب میں تو ان صلاحیتوں سے محروم ہو چکا ہوں جو میرے اسلاف میں موجود تھیں ۔ خداوندا! مجھ کو بھی عشق حقیقی کا وہ جذبہ عطا کر دے جو میرے بزرگوں کا سرمایہ افتخار تھا اور جس کی بدولت وہ اپنے حریفوں پر سبقت حاصل کرتے تھے ۔ مولا مجھے بھی ہر نوعیت کے غم و اندوہ سے نجات دلا دے ۔ اس لیے کہ عقل و دانش کے جو معمے تھے ان کو تو میں حل کر چکا ہوں ۔ اب تو بس مجھے وہ جنون عطا کر دے جو عشق حقیقی کا سرمایہ ہے ۔
رباعی (30)
یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے
چمک سورج میں کیا باقی رہے گی اگر بیزار ہو اپنی کرن سے
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ نکتہ میں نے ابوالحسن سے سیکھا ہے کہ انسان بے شک جسمانی سطح پر وفات پا جاتا ہے لیکن اس کی روح زندہ و برقرار رہتی ہے ۔ بالفاظ دگر اگر کرنیں سورج سے رابطہ ختم کر لیں تو سورج میں وہ تابندگی کیسے برقرار رہے گی جو اس کی پہچان ہے ۔ مراد یہ ہے کہ روح کے بغیر انسان محض ایک تودہ خاک ہے ۔ میرے نزدیک ابوالحسن سے یہاں مراد حضرت علی المرتضیٰ ہیں چونکہ وہ امام حسن کے والد محترم بھی تھے اس لیے ان کی کنیت ابوالحسن تھی ۔ رباعی میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے اس کے اشارے قرآن پاک کی ایک آیت کے حوالے سے نہج البلاغہ کے بعض اشعار میں بھی ملتے ہیں کہ خدا نور ہے اور روح اس نور کی کرن یعنی پرتو ہے ۔