Please wait..

والدہ مرحومہ کی یاد میں

 
ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے
پردہَ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

معانی: والدہ مرحومہ: ماں جس پر اللہ کی رحمت ہوئی، یعنی علامہ کی اپنی والدہ جن کی وفات پر علامہ نے یہ نظم کہی ۔ دہر: زمانہ ۔ زندانیِ تقدیر: مقدر کا قیدی یعنی تقدیر کے حکم کے بغیر کچھ نہ کرنے کے قابل انسان ۔ مجبوری و بیچارگی: ناچاری و بے بسی کی حالت ۔ تدبیر: کوشش، منصوبہ ۔
مطلب: نظم کا آغاز کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ اس کائنات کا ہر ایک ذرہ عملاً تقدیر کے زندان میں قید ہے یعنی ہر لمحے دنیا بھر میں وہی کچھ ہوتا ہے جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ اور جس چیز کو ہم تدبیر کا نام دیتے ہیں وہ فی الواقع اپنی مجبوری اور بے بسی پر پردہ ڈالنے کی ایک صورت ہوتی ہے ۔

 
آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں

معانی: شمس و قمر: سورج اور چاند، یعنی پوری کائنات ۔ انجم: جمع نجم، ستارے ۔ سیماب پا: پارے کے پاؤں جیسا، نہ ٹھہرنے والا ۔ رفتار: چلنے کی حالت ۔
مطلب: چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان بھی مجبور ہے اور سورج کے علاوہ چاند بھی مجبور ہے ۔ ان کے علاوہ ستارے جو انتہائی تیز رفتار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اپنی رفتار کی حد تک مجبور واقع ہوئے ہیں ۔

 
ہے شکست انجام غنچے کا سبو گلزار میں
سبزہ و گل بھی ہیں مجبورِ نمو گلزار میں

معانی: شکست انجام: جس کی اخیر ٹوٹ جانا، بکھر جانا ۔ سبو: پیالہ یعنی خود کلی ۔ گلزار: پھولوں کا باغ ۔ نمو: اُگنا، بڑھنا، پھولنا ۔ ضمیر: باطن، دل ۔
مطلب: باغ میں موجود غنچے کا انجام چٹک کر پھول کی وضع اختیار کر لینے میں ہی ہے ۔ اسی طرح سبزہ ہو یا پھول یہ سب اس امر پر مجبور ہیں کہ نمو پائیں اور پھلیں پھولیں ۔

 
نغمہَ بلبل ہو یا آوازِ خاموشِ ضمیر
ہے اسی زنجیرِ عالمگیر میں ہر شے اسیر

معانی: ضمیر: باطن، دل ۔ زنجیر عالمگیر: دنیا کے پاؤں کی بیڑی ۔ اسیر: قیدی ۔
مطلب: خواہ بلبل کا نغمہ ہو یا ضمیر کی خاموش آواز یہ سب چیزیں کائنات پر محیط اسی تقدیر کی زنجیر میں قید ہیں ۔

 
آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سرِ مجبوری عیاں
خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیلِ رواں

معانی: سر: بھید ۔ اشک: آنسو ۔ خشک ہو جانا: مراد تھم جانا ۔ سیلِ رواں : بہتا ہوا طوفان ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جب ہماری آنکھ پر ان مجبوریوں کا راز منکشف ہوتا ہے تو دل سے برآمد ہونے والا آنسووَں کا سیلاب خودبخود ہی خشک ہو جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان مجبوریوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔

 
قلبِ انسانی میں رقصِ عیش و غم رہتا نہیں
نغمہ رہ جاتا ہے، لطفِ زیر و بم رہتا نہیں

معانی: رقص عیش و غم: کبھی سکھ اور خوشیاں ، کبھی دکھ اور مصیبتیں ۔ زیر و بم: نچلے اور اونچے سر ۔
مطلب: بریں وجہ قلب انسانی میں مسرت اور غم کا احساس باقی نہیں رہتا ۔ یوں زندگی کا نغمہ تو برقرار رہتا ہے لیکن اس کے سروں کے اتار چڑھاوَ کا لطف باقی نہیں رہتا ۔ مراد یہ ہے کہ انسان پر بے حسی اور بے کیفی کا عالم طاری ہو جاتا ہے اور وہ مختلف جذبوں سے متاثر ہونا چھوڑ دیتا ہے ۔

 
علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے
یعنی اک الماس کا ٹکڑا دلِ آگاہ ہے

معانی: رہزن: لوٹ لینے والا، والی ۔ اشک و آہ: رونے فریاد کرنے کی حالت ۔ الماس: ہیرا ۔ دلِ آگاہ: علم و حکمت والا، کائنات کی حقیقتوں سے باخبر دل ۔
مطلب: مختلف اشیاَ کے بارے میں معرفت اور دانائی فی الواقع آنسووَں اور آہوں کے اثاثے کے لئے لوٹ مار مچانے والے ڈاکو ثابت ہوتے ہیں اور ہر نوع کے اسرار و رموز سے آگاہی رکھنے والا دل بالاخر الماس کا ایک ٹکڑا بن کر رہ جاتا ہے ۔

 
گرچہ میرے باغ میں شبنم کی شادابی نہیں
آنکھ میری مایہ دارِ اشکِ عنّابی نہیں

معانی: شبنم کی شادابی: اوس کی سی تری یعنی آنسو ۔ مایہ دار: پونجی رکھنے والی ۔ اشکِ عنابی: سرخ آنسو ۔
مطلب: ہر چند کہ میرا باغ اس قدر ویران ہو چکا ہے کہ اس میں شبنم کی تازگی تک باقی نہیں رہی ۔ یہی نہیں بلکہ میری آنکھوں میں وہ آنسوبھی موجود نہیں جو کبھی خون برسایا کرتے تھے اور جن آنسووَں کی رنگت عنابی یعنی سرخ ہوا کرتی تھی ۔

 
جانتا ہوں آہ! میں آلامِ انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز

معانی: آلامِ انسانی: انسان کو پہنچنے والے صدمے ۔ نوائے شکوہ: گلے، شکایت کی آواز یعنی گلہ ۔ فطرت کا ساز: مزاج جسے شکوے شکایت کی عادت نہیں ۔
مطلب: دراصل میں انسان کے غم و اندوہ کے راز سے پوری طرح سے آگاہ ہوں اسی لیے میں شکوہ شکایت کی جانب مائل نہیں ہوتا ۔

 
میرے لب پر قصہَ نیرنگیِ دوراں نہیں
دل مرا حیراں نہیں ، خنداں نہیں ، گریاں نہیں

معانی: نیرنگیِ دوراں : زمانے کی ہر وقت بدلتی صورتیں ۔ خنداں : ہنسنے والا ۔ گریاں : رونے والا ۔
مطلب: یہی سبب ہے کہ میں گردش زمانہ کا گلہ بھی نہیں کرتا ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ اقبال کے بقول میرے لبوں پر تغیرات زمانہ اور تبدیلیوں کی کہانی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میرا دل حسب واقعات، حیران بھی نہیں ہے تاہم نہ خوشی کے موقع پر ہنستا ہوں نہ غم کے موقع پر آنسو بہاتا ہوں ۔

 
پر تری تصویر قاصد گریہَ پیہم کی ہے
آہ یہ تردید میری حکمتِ محکم کی ہے

معانی: تیری تصویر: یعنی علامہ کی والدہ مرحومہ کی تصویر ۔ گریہَ پیہم: مسلسل، لگاتار رونے کی حالت ۔ تردید: کسی بات کا رد، غلط قرار دینا ۔ حکمتِ محکم: مضبوط عقل و دانش ۔
مطلب: لیکن اے ماں ! جب بھی تیری تصویر کی جانب نظر ڈالتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھے مسلسل رونے اور اشک بہانے پر مجبور کرتی ہے ۔ افسوس کہ یہ عمل میری حکمت و دانائی کو بھی رد کرتا ہے اور اسے غیر مستحکم بھی بناتا ہے ۔

 
گریہَ سرشار سے بنیادِ جاں پائندہ ہے
درد کے عرفاں سے عقلِ سنگدل شرمندہ ہے

معانی: گریہَ سرشار: دل کھول کر رونے کی کیفیت ۔ بنیادِ جاں : روح، زندگی کی بنیاد ۔ پائندہ: مضبوط، برقرار رہنے والی ۔ درد کا عرفاں : دکھ کا احساس، خیال ۔
مطلب: یہاں اقبال یوں گویا ہوتے ہیں کہ اے ماں ! میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ مسلسل رونے سے زندگی کی بنیاد زیادہ مضبوط و مستحکم ہوتی ہے ۔ درد کے احساس سے بے شک عقل کتنی بھی سنگدل ہو شرمسار ہو کر رہ جاتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ تکلیف و درد میں جو عرفان پوشیدہ ہے عقل کی اس تک رسائی ممکن نہیں ہے ۔

 
موجِ دودِ آہ سے آئینہ ہے روشن مرا
گنجِ آب آورد سے معمور ہے دامن مرا

معانی: موجِ دودِ آہ: آہوں کے دھوئیں کی لہر، مراد آہیں ۔ آئینہ: یعنی دل ۔ گنجِ آب آوردہ: وہ خزانہ جسے پانی لایا ہو یعنی آنسووَں کی جھڑی ۔ معمور: بھرا ہوا ۔
مطلب: اے ماں ! تیرے غم میں جو آہیں بھرتا ہوں ان کے سبب میرا آئینہ دل مزید صاف و شفاف ہو جاتا ہے ۔ اور تیرے غم میں بہنے والے آنسووَں سے میرا دامن تر ہو جاتا ہے ۔

 
حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا
رُخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا

معانی: حیرتی: حیرانی میں ڈوبا ہوا ۔ اعجاز: کرامت ۔ وقت کی پرواز کا رخ بدل ڈالا: یعنی مستقبل کے بارے میں سوچنے کی بجائے ماضی کی یادوں میں کھو جانے کی حالت کر دی ۔
مطلب: اے ماں ! یہ اعجاز تیری تصویر کا ہی ہے جس نے وقت کی پرواز کا رخ بدل ڈالا ہے ۔

 
رفتہ و حاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا
عہدِ طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا

معانی: رفتہ: گزرا ہوا، ماضی ۔ حاضر: موجودہ زمانہ حال ۔ پابپا: مراد ساتھ ملے ہوئے ۔ عہدِ طفلی: بچپن کے دن ۔
مطلب: یہ امر حیرت انگیز ہے کہ اس تصویر نے میرے حال و ماضی کو یکجا کر دیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے بچپن سے آشنا کر دیا ہے ۔

 
جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جانِ ناتواں
بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں

معانی: جانِ ناتواں : کمزور، نومولود جان ۔ محرم: واقف، جاننے والی ۔
مطلب: بے شک مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے جب میرا کمزور جسم تیرے سایہ عاطفت میں پرورش پا رہا تھا اور میں نے ابھی اچھی طرح بولنا نہیں سیکھا تھا ۔

 
اور اب چرچے ہیں جس کی شوخیِ گفتار کے
بے بہا موتی ہیں جس کی چشمِ گوہر بار کے

معانی: شوخیِ گفتار: یعنی دل کش شاعری ۔ بے بہا: بہت قیمتی ۔ چشمِ گوہر بار: موتی برسانے والی آنکھ ۔
مطلب: جب کہ آج ہر جگہ میری شوخی گفتار یعنی شاعری کے چرچے ہو رہے ہیں اور میری آنکھوں سے بہنے والے آنسو موتی تصور کیے جاتے ہیں ۔

 
علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

معانی: سنجیدہ گفتاری: بات چیت میں احتیاط کا اور بڑوں کا سا طریقہ ۔ بڑھاپے کا شعور: بوڑھے ہونےکا احساس ۔ دنیوی اعزاز: دنیا کی عزت ۔ شوکت: شان، دبدبہ ۔ غرور: فخر، گھمنڈ ۔
مطلب: علم کے حصول اور اس کے بعد سنجیدگی سے گفتگو کرنے کا عمل، اپنی ضعیفی اور عمر کے باعث حاصل ہونے والی دانائی اور حکمت، زندگی میں ملنے والے مراتب اور منصب، اس کے ساتھ جوانی کی عمر کا غرور اور ولولہ

 
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

معانی: اوج گاہ: بلند مرتبہ ۔ صحبت مادر: ماں کے ساتھ ہونا، رہنا ۔ طفلِ سادہ: بے سمجھ سا بچہ، بھولا بھالا بچہ ۔
مطلب: بے شک عرف عام میں انہیں انسانی بلندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ ماں کے سامنے ہوتا ہے تو پھر ان تمام بلندیوں سے نیچے اتر آتا ہے اور محض ایک معصوم بچہ بن کر رہ جاتا ہے ۔ ماں کے روبرو تو بڑے سے بڑے شخص کی یہی کیفیت ہوتی ہے ۔

 
بے تکلف خندہ زن ہیں ، فکر سے آزاد ہیں
پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

معانی: بے تکلف: بناوٹ، ظاہر داری کے بغیر ۔ خندہ زن: ہنسنے والا ۔ کھویا ہوا فردوس: یعنی بچپن کی بھولی بھالی معصوم زندگی ۔ آباد ہیں : رہ رہے ہیں ۔
مطلب: ماں کی محبت میں تو بڑے بڑے لوگوں کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ وہ سب تکلفات بالائے طاق رکھ کر بلند بانگ قہقہے لگاتے ہیں اور ہر نوع کے تفکرات سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔ ماں کے سامنے وہ خود کو ماضی کی کھوئی ہوئی دنیا میں محسوس کرتے ہیں جو ایک طرح سے جنت گم گشتہ کی مانند تھی ۔

 
کس کو اب ہو گا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ والدہ کے انتقال کے بعد اب وطن میں میرا اور میرے خط کا انتظار کون کرے گا ۔ واضح رہے کہ ان دنوں اقبال یورپ میں مقیم تھے ۔

 
خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آوَں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آوَں گا

معانی: خاکِ مرقد: قبر کی مٹی، مراد قبر ۔ تربیت: زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانا ۔
مطلب: واضح رہے کہ ان دنوں اقبال یورپ میں مقیم تھے وہ کہتے ہیں کہ جب میری وطن واپسی ہو گی تو اے ماں ! تیری قبر پر یہ فریاد لے کر آوَں گا کہ نصف شب کے وقت میری بہبودی کے لئے تو جو دعائیں کرتی تھی اب کون کرے گا

 
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہَ عزت ہوا

معانی: تربیت: زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانا ۔ انجم کا ہم قسمت: مراد ستاروں کی طرح بلند مقدر والا ۔ اجداد: جمع جد، باپ دادا، پرانے بزرگ ۔ سرمایہَ عزت: شان اور مرتبے کی دولت ۔
مطلب: اے ماں تیری پرورش اور تربیت کا نتیجہ ہی تھا کہ آج مجھے یہ عزت و وقار حاصل ہوا ہے اور ساری دنیا کی نظروں میں ہمارے خاندان کے احترام میں اضافہ ہوا ہے ۔

 
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات

معانی: دفترِ ہستی: زندگی کی کتاب ۔ زریں ورق: سنہری ورقوں ، صفحوں والی ۔ سراپا: مکمل ۔ دین و دنیا کا سبق: دین اور دنیا کے مطابق تربیت ۔
مطلب: عملاً تیری زندگی دین و دنیا کے حوالے سے ایک سبق کی مانند تھی ۔ ساری عمر تو میری محبت و شفقت سے سرشار میری تربیت میں کوشاں رہی ۔

 
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا، تو چل بسی

معانی: خدمت گر: خدمت کرنے والی ۔ تو چل بسی: تو فوت ہو گئی ۔
مطلب: ساری عمر تو میری محبت و شفقت سے سرشار میری تربیت میں کوشاں رہی لیکن جب میں تیری خدمت کے قابل ہوا تو کس قدر دکھ کی بات ہے کہ تو داغ مفارت دے گئی ۔

 
وہ جواں ، قامت میں ہے جو صورتِ سروِ بلند
تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند

معانی: وہ جواں : اشارہ ہے علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد مرحوم کی طرف ۔ قامت: قد کاٹھ ۔ صورتِ سروِ بلند: اونچے لمبے سرو کی طرح ۔ بہرہ مند: حصہ پانے والا ۔
مطلب: ان اشعار میں اقبال اپنے بڑے بھائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بلند قد جواں سال، خوبصورت اور خوب سیرت شخص جو میرا بھائی اور تیرا بیٹا ہے وہ یہاں موجود رہ کر تیری خدمت میں سرگرداں رہا اور میری نسبت تیری زیادہ دیکھ بھال کرتا رہا ۔

 
کاروبارِ زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا
وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا

معانی: کاروبارِ زندگانی: زندگی کے کام کاج ۔ ہم پہلو: مراد ساتھ چلنے والا ۔ تیری تصویر: بالکل تیرے جیسا، تیرے مزاج جیسا ۔
مطلب: یہ شخص جو میرا عزیز بھائی ہے اور شریک کار ہے وہ میرے لیے عملاً تیری محبت کا بدل ہے ۔ وہ میرے لیے قوت بازو کی حیثیت رکھتا ہے ۔

 
تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ
صبر سے نا آشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

معانی: طفلکِ بے دست و پا: بے بس، عاجز چھوٹا سا بچہ ۔ صبح و مسا: صبح و شام یعنی ہر وقت ۔
مطلب: وہ اب یقیناً تیری موت پر بچوں کی طرح روتا ہو گا ۔ اسے صبر کس طرح آئے گا ۔ ظاہر ہے کہ صبح و شام گریہ اس کا کام ہو گا ۔ میں تو یہاں یورپ میں مقیم تیری یاد میں غم گسار ہوں ۔ میرے لیے یہ کرب ناقابل برداشت ہے جب کہ میرا بھائی تو تیرے موت کے حادثے کو اپنی نگاہوں سے دیکھتا رہا ۔

 
تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بو گئی
شرکتِ غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی

معانی: تخم: بیج، دانہ ۔ کشتِ جاں : روح کی کھیتی، جان ۔ شرکت غم: دکھ میں برابر کا شریک ہونے کی حالت ۔ الفت: محبت ۔ محکم: پکی ۔
مطلب: اے ماں تو نے ہم بھائیوں کے دلوں میں محبت کا جو جذبہ پیدا کیا تھا اب تیرے غم کے سبب یہ جذبہ اور مستحکم ہو گیا ہے کہ یہ دکھ ہمارے مابین قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے ۔

 
آہ! یہ دنیا، یہ ماتم خانہَ برنا و پیر
آدمی ہے کس طلسمِ دوش و فردا کا اسیر

معانی: ماتم خانہ: یعنی دکھوں کا گھر ۔ برنا: جوان ۔ پیر: بوڑھا ۔ طلسمِ دوش و فردا: یعنی وقت کی گردش، چکر ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یہ دنیا کیا ہے یہی نا کہ ہر جوان اور بوڑھے کے لیے ماتم کدے کی حیثیت رکھتی ہے جب کہ انسان اس کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہا ۔ یوں لگتا ہے کہ وہ ابھی ماضی اور حال کے طلسم میں اسیر ہے ۔

 
کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت

معانی: مشکل: یعنی مصیبتوں کے سبب مشکل ۔ آساں : یعنی مرنے پر آدمی مشکلوں سے چھوٹ جاتا ہے ۔ گلشنِ ہستی: زندگی کا باغ یعنی زندگی ۔ مانندِ نسیم: ہوا کی طرح ۔ ارزاں : کم قیمت ۔
مطلب: زندگی اور موت کا اگر مقابلہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی بسر کرنا بے حد مشکل کام ہے ۔ اور موت اس قدر سہل ہے جیسے کہ کسی باغ میں نسیم بلا کسی تردد کے رواں دواں رہتی ہے ۔

 
زلزلے ہیں ، بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں

معانی: زلزلے: بھونچال ۔ آلام: جمع الم، مصیبتیں ۔ دختران: جمع دختر، بیٹیاں ۔ مادرِ ایام: زمانے کی ماں ۔
مطلب: زندگی میں تو زلزلے، بجلیاں ، قحط اور آلام و مصائب کی بہتات ہے ۔ زمانہ کی حیثیت ایک ایسی سنگ دل ماں کی طرح ہے جو اس نوع کی اولاد پیدا کرتی ہے ۔

 
کُلبہَ افلاس میں ، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں ، شہر میں ، گلشن میں ویرانے میں موت

معانی: کلبہ: جھونپڑی ۔ دشت و در: جنگل اور بیابان ۔
مطلب: موت تو ایک ایسی حقیقت ہے جو افلاس و غربت کے تنگ و تاریک گھروں کے علاوہ امراَ کے دولت کدوں تک جس کی رسائی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ بیابان و صحرا، آبادیاں ، باغات اور ویرانے، بھی موت کی دسترس سے نہیں بچ سکے ہیں ۔

 
موت ہے ہنگامہ آرا قلزمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

معانی: ہنگامہ آرا: شور و غوغا مچانے والی ۔ قلزم: سمندر ۔ سفینے: کشتیاں ۔ آغوش: گود ۔
مطلب: موت تو ان پرسکون سمندروں پر بھی محیط ہے جو ہر نوع کے ہنگاموں اور طوفانوں سے محفوظ تصور کیے جاتے ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایسے سمندروں میں رواں دواں کشتیاں موجوں کی آغوش میں ڈوب جاتی ہیں ۔

 
نے مجالِ شکوہ ہے، نے طاقتِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوقِ گلو افشار ہے

معانی: مجالِ شکوہ: شکایت کی طاقت ۔ طاقتِ گفتار: بولنے کی ہمت ۔ طوقِ گلو افشار: گلا گھونٹنے والا لوہے کا حلقہ ۔
مطلب: موت تو ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ اس کے خلاف نہ تو کسی کو شکوہ کرنے کی جرات ہوتی ہے اور نہ گلہ کرنے کا حوصلہ ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ موت تو ایک ایسے طوق کی مانند ہے جس سے پہننے والے کا گلا گھٹ جاتا ہے ۔

 
قافلے میں غیر فریادِ درا کچھ بھی نہیں
اک متاعِ دیدہَ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

معانی: غیر: سوائے ۔ فریادِ درا: کوچ کی گھنٹی کی آواز ۔ متاع: دولت، پونجی ۔ دیدہَ تر: یعنی روتی آنکھیں ۔
مطلب: غور سے دیکھا جائے تو حیات انسانی ایک ایسے قافلے کی مانند ہے جس میں ایک انتہائی گھنٹی کے سوا ہر طرف خامشی طاری ہے ۔ یہاں انسانی متاع محض آنکھ ہے جو آنسو بہاتی رہتی ہے ۔

 
ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دور بھی
ہیں پسِ نہُ پردہَ گردوں ابھی دور اور بھی

معانی: امتحاں : آزمائش ۔ پس: پیچھے ۔ نہُ پردہَ گردوں : نو آسمان ۔
مطلب: جان لے کہ یہ مصائب و ابتلا کا دور بھی بالاخر ایک روز ختم ہو کر رہ جائے گا ۔ اس لیے کہ نو آسمانوں کے پس پشت ابھی کچھ اور آسمان یعنی ادوار ابھی باقی رہتے ہیں جنھیں کسی نہ کسی مرحلے پر ظہور پذیر ہونا ہے ۔

 
سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا
نالہ و فریاد پر مجبور بلبل ہیں تو کیا

معانی: سینہ چاک: زخمی دل والا ۔ قفس: پنجرہ ۔
مطلب: اگر اس دنیا میں لالہ و گل کے سینے چاک ہیں اور بلبل آہ و زاری پر مجبور ہے تو پھر کیا ہوا ۔ اس لیے کہ ایسی جھاڑیاں جنھیں خزاں نے تہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے انہیں بار کی ہوا نئے سرے سے تروتازہ کر کے رکھ دے گی ۔

 
جھاڑیاں ، جن کے قفس میں قید ہے آہِ خزاں
سبز کر دے گی انھیں بادِ بہاری جاوداں

معانی: قفس: پنجرہ ۔ بادِ بہارِ جاوداں : ہمیشہ کے لیے قائم رہنے والی بہار کی ہوا ۔ سبز کرنا: تروتازہ کرنا ۔
مطلب: اس لیے کہ ایسی جھاڑیاں جنہیں خزاں نے تہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے انہیں بہار کی ہوا نئے سرے سے تروتازہ کر کے رکھ دے گی ۔

 
خُفتہ خاکِ پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا
عارضی محمل ہے یہ مشتِ غبار اپنا تو کیا

معانی: خفتہ: سویا ہوا ۔ خاک پے سپر: راستے میں اڑنے والی مٹی ۔ شرار: چنگاری ۔ عارضی: وقتی ۔ محمل: کجاوہ ۔ مشتِ غبار: مراد جسم ۔

 
زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جس کا مقدّر ہو، یہ وہ گوہر نہیں

معانی: خاکستر: راکھ ۔ گوہر: موتی ۔
مطلب: اگر ہماری زندگی ایک پامال اور پژمردہ روح کی مانند ہے اور یہ خاکی جسم محض عارضی حیثیت کا حامل ہے تو کیا اس لیے کہ زندگی جس آگ سے عبارت ہے اس کا انجام محض خاک نہیں ہے کہ زندگی تو ایک ایسا موتی ہے جس کے مقدر میں شکستگی نہیں ہے ۔

 
زندگی محبوب ایسی دیدہَ قدرت میں ہے
ذوقِ حفظِ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے

معانی: دیدہَ قدرت: قدرت کی نگاہ ۔ محبوب: پیاری ۔ ذوق: شوق ۔ حفظِ زندگی: زندگی کی حفاظت ۔
مطلب: یوں بھی قدرت کی نگاہ میں زندگی اس قدر پیاری ہے کہ رب ذولجلال نے ہر شے کو تخلیق کرتے وقت اس میں زندگی کے تحفظ کا جذبہ بھی شامل کر دیا تھا ۔

 
موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقشِ حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظامِ کائنات

معانی: نقشِ : تحریر، نشان ۔ نظامِ کائنات: دنیا کا انتظام، بندوبست ۔
مطلب: اگر موت اتنی طاقتور ہوتی کہ اس کے ہاتھوں حیات انسانی کا نظام زیرو زبر ہو جاتا تو اس کو یعنی موت کو نظام کائنات میں یوں عام نہ کر دیا جاتا ۔

 
ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اَجل کچھ بھی نہیں
جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں

معانی: اجل: موت ۔ خلل: گڑ بڑ ۔
مطلب: موت اتنی ارزاں اور سستی واقع ہوئی ہے تو سمجھ لو کہ جس طرح خواب کے عمل سے زندگی میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا اس طرح موت کی حقیقت بھی معمولی سی ہے ۔

 
آہ! غافل! موت کا رازِ نہاں کچھ اور ہے
نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے

معانی: رازِ نہاں : چھپا ہوا بھید ۔ ناپائداری: کمزوری ۔
مطلب: انسان تو اس قدر غفلت شعار ہے کہ اس حقیقت کا بھی اسے ادراک نہیں کہ موت کا اصل راز کیا ہے زندگی کی ناپائداری سے کچھ اورر ہی ظاہر ہوتا ہے ۔

 
جنتِ نظّارہ ہے نقشِ ہوا بالائے آب
موجِ مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب

معانی: جنت نظارہ: دیکھنے میں بہشت کے نظاروں کی طرح دل کش ۔ نقشِ ہوا بالائے آب: چلنے سے پانی پر بننے والی لکیریں ۔ مضطر: بے چین ۔ حباب: بلبلہ ۔
مطلب: ذرا غور کیا کہ ہوا کے طرز عمل سے تعمیر پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ مضطرب موج بلبلوں کو توڑ کر پھر سے تعمیر کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے ۔

 
موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ
کتنی بے دردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ

معانی: بیدردی: ظلم، سختی ۔
مطلب: لیکن ہوا کرتی کیا ہے کہ بلبلوں کو پیدا کر کے موج کے دامن میں چھپا دیتی ہے ۔ یعنی خود ہی انتہائی بے دردی کے ساتھ اس نقش کو مٹا دیتی ہے ۔

 
پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا
توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا

مطلب: اس عمل کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اگر ہوا بلبلے کو ازسرنو پیدا کرنے پر قادر نہ ہوتی تو اس بے پروائی سے اسے توڑتی ہی کیوں ۔

 
اس روش کا کیا اثر ہے ہیَت تعمیر پر
یہ تو حجت ہے ہوا کی قوتِ تعمیر پر

معانی: روش: طریقہ، چلن ۔ ہیَت: ڈھانچا ۔
مطلب: ہوا کے اس رویے کا اثر تعمیر ہیَت پر کچھ نہیں پڑتا بلکہ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہوا کو اپنی قوت تعمیر پر کس قدر گرفت حاصل ہے ۔

 
فطرتِ ہستی شہیدِ آرزو رہتی نہ ہو
خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو

معانی: فطرتِ ہستی: کائنات کا مزاج ۔ شہیدِ آرزو: خواہش ، خواہشات کا مارا ہوا، اچھی سے اچھی تخلیق کا خواہشمند ۔
مطلب: اس ساری گفتگو سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ زندگی ہمیشہ فطرتاً نئی نئی آرزووَں اور خواہشوں کی متلاشی رہتی ہے اور اس کو بہتر سے بہتر چیز کی جستجو رہتی ہے ۔

 
آہ! سیمابِ پریشاں ، انجمِ گردوں فروز
شوخ یہ چنگاریاں ، ممنونِ شب ہے جن کو سوز

معانی: سیمابِ پریشاں : پھیلنے والا، منتشر پارا ۔ انجم گردوں فروز: آسمان کو روشن کرنے والے ستارے ۔ شوخ: مراد دل کش ۔ چنگاریاں : یعنی ستارے ۔ ممنونِ شب: رات کا احسان مند ۔ سوز: مراد روشنی ۔
مطلب: افسوس کہ یہ پارے کی مانند مضطرب اور چمکدار ستارے جو فضائے آسمان کو منور کرتے ہیں یہ شوخ چنگاریاں جو اپنے وجود کی نمائش کے لیے تاریکی شب کی احسان مند ہیں ۔

 
عقل جس سے سربہ زانو ہے وہ مدّت ان کی ہے
سرگزشت نوعِ انساں ایک ساعت ان کی ہے

معانی: سربزانو: غوروفکر میں ڈوبی ہوئی ۔ سرگزشت: ماجرا، قصہ ۔ نوعِ انساں : مراد تمام انسان ۔ ساعت: پل، گھڑی ۔
مطلب: انسانی دانش جب ان کی عمر کے بارے میں غوروخوض کرتی ہے تو کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے حیران و پریشان ہو کر رہ جاتی ہے ۔

 
پھر یہ انساں آں سوئے افلاک ہے جس کی نظر
قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر

معانی: آں سوئے افلاک: آسمانوں کے اس پار، دوسری طرف ۔ قدسی: فرشتہ ۔ مقاصد: جمع مقصد، ارادے ۔ پاکیزہ تر: زیادہ صاف ستھری ۔
مطلب: انسان جس کی نگاہ ہمیشہ آسمانوں سے بھی آگے نظارہ کرنے کی حامل ہے اور جو اپنے مقاصد میں فرشتوں سے بھی زیادہ پاک و پاکیزہ ہے ۔

 
جو مثالِ شمعِ روشن محفلِ قدرت میں ہے
آسماں اک نقطہ جس کی وسعتِ فطرت میں ہے

معانی: محفلِ قدرت: کائنات ۔

 
جس کی نادانی صداقت کے لیے بیتاب ہے
جس کا ناخن سازِ ہستی کے لیے مضراب ہے

معانی: بیتاب: بے چین، بیقرار ۔ مضراب: لوہے کا چھلا جس سے ساز چھیڑا جاتا ہے ۔
مطلب: اس کے باوجود اپنی کم فہمی کے سبب سچائی کی تلاش میں مضطرب اور پریشان ہے جس کا وجود زندگی کے ساز کے لیے ایک مضراب کی حیثیت رکھتا ہے ۔

 
شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا

معانی: کمتر: زیادہ کم یا تھوڑا ۔ کم بہا: تھوڑی قیمت ۔
مطلب: تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ گردوں کے ستاروں سے بھی آب و تاب میں کمتر ہے اور کیا اس کا رتبہ سورج کے مقابلے میں بھی کم ہے

 
تخمِ گل کی آنکھ زیرِ خاک بھی بے خواب ہے
کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے

معانی: تخمِ گل: پھول کا بیج ۔
مطلب: پھول کا بیج زیر خاک بھی بویا جاتا ہے تو وہ نشوونما کے لیے مضطرب اور بے تاب رہتا ہے ۔

 
زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے
خودنمائی، خود فزائی کے لیے مجبور ہے

معانی: مستور: چھپا ہوا ۔ خودنمائی: اپنا آپ دکھانا ۔ خود افزائی: اپنے آپ کو پھیلانا ۔
مطلب: اس معمولی بیج میں فی الاصل ایک ایسا شعلہ چھپا ہوا ہے جو زندگی سے عبارت ہے یہ بیج اپنے اظہار و نمود کے لیے بے چین رہتا ہے

 
سردیِ مرقد سے بھی افسردہ ہو سکتا نہیں
خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں

معانی: سردیِ مرقد: قبر کی ٹھنڈک ۔
مطلب: یہ بیج مٹی کی خنکی سے بھی نہیں مرتا اور خاک میں دبائے جانے کے باوجود اس میں زندگی کی حرارت باقی رہتی ہے ۔

 
پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ
موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ

معانی: تربت: قبر مراد زمین میں ۔
مطلب: چنانچہ موقعہ پاتے ہی یہ بیج پھول بن کر خاک کی تہوں سے باہر نکل آتا ہے بالفاظ دگر موت کے ہاتھوں زندگی کا لباس پہن لیتا ہے ۔ یعنی موت ہی اس کی تخلیق اور نمو کا باعث بنتی ہے ۔

 
ہے لحد اس قوتِ آشفتہ کی شیرازہ بند
ڈالتی ہے گردنِ گردوں میں جو اپنی کمند

معانی: لحد: قبر یعنی مٹی ۔ قوتِ آشفتہ: بکھری ہوئی طاقت ۔ شیرازہ بند: جمع کرنے والی ۔ ڈالتی ہے: یعنی یہ طاقت ۔ کمند: رسی کا پھندا کسی جگہ اٹکا کر اس کے ذریعہ اوپر چڑھنا ۔
مطلب: یوں موت زندگی کے ذوق کی تجدید کا دوسرا نام ہے ۔ بالفاظ دگر عالم خواب میں بیداری کا پیغام ہے ۔

 
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

معانی: تجدیدِ مذاق زندگی: زندگی کی لذت کو تازہ کرنا ۔
مطلب: اس لیے کہ جو پرواز کے عادی ہوتے ہیں ان کو پرواز کا کوئی خوف نہیں ہوتا جب کہ موت اس دنیا میں نئے سرے سے پرواز پر آمادہ کرتی ہے ۔

 
خوگرِ پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدنِ پر کچھ نہیں

معانی: سنجیدنِ پر: پر تولنا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ دنیا والوں کے نزدیک موت کا کوئی مداوا نہیں اس کے باوجود مرنے والے کی جدائی کا غم وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے ۔

 
کہتے ہیں اہلِ جہاں دردِ اجل ہے لادوا
زخمِ فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

معانی: دردِ اجل: موت کا درد ۔ زخمِ فرقت: جدائی کا زخم ۔
مطلب: گویا وقت جدائی کے لیے مرہم کی حیثیت رکھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دل ایک ایسی بستی ہے جو مرنے والوں کے غم کو اپنے دامن میں محفوظ کر لیتی ہے اور اس پر زمانے کی کوئی گرفت نہیں ہوتی ۔

 
دل مگر غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے
حلقہَ زنجیرِ صبح و شام سے آزاد ہے

معانی: حلقہَ زنجیر صبح و شام: صبح و شام کا تسلسل مراد وقت ۔
مطلب: حقیقت یہ ہے کہ دل ایک ایسی بستی ہے جو مرنے والوں کے غم کو اپنے دامن میں محفوظ کر لیتی ہے اور اس زمانے کی کوئی گرفت نہیں ہوتی ۔ گریہ و نالہ و ماتم کو وقت کا طلسم بھی نہیں روک سکتا ۔

 
وقت کے افسوں سے تھمتا نالہَ ماتم نہیں
وقت زخمِ تیغِ فرقت کا کوئی مرہم نہیں

معانی: افسوں : جادو ۔ نالہَ ماتم: سوگ میں آہ و زاری ۔ زخمِ تیغِ فرقت: جدائی کی تلوار کا زخم ۔
مطلب: اس کیفیت میں دل کو نالہ و فریاد سے ایک باضابطہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور دل کا خون آنکھوں کے راستے بہہ نکلتا ہے ۔ ہر چند کہ انسان صبر کی قوت سے محروم ہے اس کے باوجود اس کی فطرت میں غیر محسوس طریق پر یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے ۔

 
سر پہ آ جاتی ہے جب کوئی مصیبت ناگہاں
اشکِ پیہم دیدہَ انساں سے ہوتے ہیں رواں 

معانی: ناگہاں : اچانک ۔ اشکِ پیہم: مسلسل بہنے والے آنسو ۔ دیدہَ انساں : انسان کی آنکھ ۔
مطلب: جب انسان پر کوئی اچانک مصیبت آ پڑتی ہے تو اس کی آنکھوں سے بے انتہا آنسو رواں ہو جاتے ہیں ۔

 
ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فریاد سے
خونِ دل بہتا ہے آنکھوں کی سرشک آباد سے

معانی: سرشک آباد: مراد راستہ، ذریعہ ۔
مطلب: اس کیفیت میں دل کو نالہ و فریاد سے ایک باضابطہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور دل کا خون آنکھوں کے راستے بہہ نکلتا ہے ۔

 
آدمی تابِ شکیبائی سے گو محروم ہے
اس کی فطرت میں یہ اک احساس نامعلوم ہے

معانی: تابِ شکیبائی: صبر ۔ نامعلوم: جو واضح نہ ہو ۔
مطلب: ہر چند کہ انسان صبر کی قوت سے محروم ہے اس کے باوجود اس کی فطرت میں غیر محسوس طریق پر یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے ۔

 
جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

معانی: جوہرِ انسان: انسان کی اصل یعنی روح ۔ عدم: فنا، نیستی ۔
مطلب: انسان مرنے کے بعد بے شک ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا ۔

 
رختِ ہستی خاک، غم کی شعلہ افشانی سے ہے
سرد یہ آگ اس لطیف احساس کے پانی سے ہے

معانی: رختِ ہستی: زندگی کا سازوسامان ۔ شعلہ افشانی: شعلے بکھیرنا ۔ سرد: ٹھنڈی، بھجی ہوئی ۔
مطلب: بے شک غم کے شعلے زندگی کو جلا کر خاک تو کر دیتے ہیں تا ہم دل کی یہ آگ محض اس احساس کی بدولت ہی بجھتی ہے کہ انسان اس دار فانی سے اٹھ تو جاتا ہے لیکن عملاً فنا نہیں ہوتا ۔ اور یہی وہ احساس ہے جو رنج و غم کی مسلسل کمی کا سبب بنتا ہے ۔

 
آہ! یہ ضبطِ فغاں غفلت کی خاموشی نہیں
آگہی ہے یہ دلاسائی، فراموشی نہیں

معانی: ضبطِ فغاں : آہ و زاری پر قابو پانے، روکنے کی حالت ۔ آگہی: شعور ۔ دل آسائی: دل کا سکون، قرار ۔ فراموشی: بھولنے کی حالت
مطلب: اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز کو وفات پر آہ و فغاں سے گریز کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ غم کے احساس سے غافل ہو چکا ہے ۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ وہ موت کے بھیدوں سے آگاہی رکھتا ہے ۔

 
پردہَ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
داغ شب کا دامنِ آفاق سے دھوتی ہے صبح

معانی: پردہَ شب: مراد سورج نکلنے کی جگہ ۔ جلوہ گر: یعنی ظاہر ۔ آفاق: جمع افق، دور کے آسمانی کنارے مراد آسمان ۔
مطلب: جب مشرق کی جانب سے افق پر صبح نمودار ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ کائنات کے دامن سے شب کی سیاہی کا داغ دھو رہی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی نمودار ہو رہی ہے ۔

 
لالہَ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زباں طائر کو سرمستِ نوا کرتی ہے یہ

معانی: آتش قبا: آگ جیسا سرخ لباس، لالہ کا سرخ رنگ مراد ہے ۔ طائر: پرندہ ۔ بے زباں : جس میں بولنے کی قوت نہ ہو ۔ سرمستِ نوا: چہچہانے میں بیحد مصروف ۔
مطلب: باغ میں لالہ کا پھول و تاریکی شب کے سبب افسردہ نظر آتا تھا صبح سورج کی وساطت سے اس کو شعلے جیسا سرخ لباس عطا کرتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ علی الصبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کا عکس لالے کے پھول کو سرخی مائل کر دیتا ہے ۔ اور پرندے جو تمام رات اپنے گھونسلوں میں خاموش رہے ان کو چہچہانے اور نغمہ ریزی پر مجبور کر دیتی ہے ۔

 
سینہَ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے
سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے

معانی: سرود آزاد ہے: چہچہانے کی آواز باہر نکل رہی ہے ۔ صبح دم: صبح کی ہوا ۔ آباد ہے: یعنی اس میں پرندوں کی آوازیں گونچ رہی ہیں ۔
مطلب: بلبل بھی اس لمحے نغمے گانے لگتی ہے اور صبح کی ٹھنڈی ہوا میں پرندے ترنم ریز ہو جاتے ہیں ۔

 
خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار
ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہم کنار

معانی: خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رودبار: لالہ کے باغ میں پہاڑ اور دریا کے کنارے پر سوئے ہوئے، مراد پھول ۔ عروسِ زندگی: زندگی کی دلہن، مراد تروتازگی جو صبح شبنم کے سبب پھولوں وغیرہ میں پیدا ہوتی ہے ۔ ہمکنار: بغل گیر ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ باغوں ، پہاڑوں اور دریاؤں میں جو مظاہر شب بھر پرسکون رہے آمد صبح ان میں بھی زندگی کی لہر دوڑا دیتی ہے ۔

 
یہ اگر آئینِ ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقدِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح

معانی: آئینِ ہستی: کائنات کا نظام ۔ مرقد: قبر ۔ انجام: اخیر ۔
مطلب: سو ! یہ اگر قانونِ قدرت ہے کہ ہر شام صبح پر منتج ہو تو پھر انسانی قبر کی تاریکی کا خاتمہ کس لیے ممکن نہیں ۔ صبح اس کا مقدر کیوں نہیں ہو سکتی ۔ اقبال نے ان اشعار میں ایک منطقی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ موت کوئی آخری مرحلہ نہیں ہے اس کے بعد بھی زندگی ہے ۔

 
دامِ سیمینِ تخیل ہے مرا آفاق گیر
کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر

معانی: دامِ سیمینِ تخیل: چاندی کے تاروں سے بُنا ہوا شاعرانہ خیالات کا جال یعنی دل کو بھانے والے خیالات ۔ آفاق گیر: دنیا پر چھا جانے والے ۔ اسیر: قیدی ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اے ماں ! میرے خیالات میں اتنی وسعت ہے کہ ان کی حدود میں تیری یاد کو محفوظ کر لیا ہے ۔

 
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے

معانی: درد آشنا: غم سے واقف ۔ معمور: بھرا ہوا ۔
مطلب: میرا غم زدہ دل تیری یاد سے معمور ہے بالکل اسی طرح جیسے حرم کعبہ کی فضائیں دعاؤں سے معمور ہیں ۔

 
وہ فراءض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات
جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہانِ بے ثبات

معانی: فراءض: جمع فریضہ، وہ کام جن کا کرنا ضروری ہو ۔ تسلسل: لگاتار ہونے کی کیفیت ۔ حیات: زندگی ۔ جلوہ گاہ: ظاہر ہونے کی جگہ ۔ جہانِ بے ثبات: فانی دنیا ۔
مطلب: زندگی جس چیز کا نام ہے وہ تو ایک طرح سے انسانی فراءض کے تسلسل سے عبارت ہے ۔ یہ زندگی لاکھوں ناپائیدار دنیاؤں میں جلوہ گر ہے ۔

 
مختلف ہر منزلِ ہستی کی رسم و راہ ہے
آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے

معانی: رسم و راہ: طور طریقے ۔ آخرت : دوسری دنیا جہاں مرنے کے بعد حساب کتاب ہو گا ۔ جولاں گاہ: دوڑنے کی جگہ، میدان ۔
مطلب: تا ہم یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی ہر منزل کا طریق کار مختلف ہے ۔ مرنے کے بعد انسان جس جہاں میں جاتا ہے وہ بھی زندگی کا ایک مظہر ہے ۔

 
ہے وہاں بے حاصلی کشتِ اجل کے واسطے
سازگار آب و ہوا تخمِ عمل کے واسطے

معانی: بے حاصلی: فصل نہ ہونے کی کیفیت، بے نتیجہ ہونا ۔ کشتِ اجل: موت کی کھیتی ۔ تخمِ عمل: عمل کا بیج ۔
مطلب: مرنے کے بعد انسان جس جہاں میں جاتا ہے وہ بھی زندگی کا ایک مظہر ہے ۔ وہاں موت کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ اس کے برعکس وہاں کا ماحول عمل کے لیے بڑا مناسب اور سازگار ہے ۔

 
نورِ فطرت ظلمتِ پیکر کا زندانی نہیں
تنگ ایسا حلقہَ افکارِ انسانی نہیں

معانی: نورِ فطرت: قدرت کا نور، روشنی ۔ ظلمتِ پیکر: جسم کی تاریکی ۔ زندانی: قیدی ۔ حلقہ: دائرہ ۔
مطلب: اے ماں ! وہ جہاں تو ایسا ہے جہاں انسان جسم کا قیدی نہیں ہو گا بلکہ وہاں تو محض روح ہو گی اور اس کا نور ہو گا ۔ چنانچہ یہ قدرتی امر ہے کہ وہاں فکر انسانی کا دائرہ یہاں کی طرح محدود نہیں ہو گا ۔

 
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

معانی: مہتاب: چاندنی، چاند ۔ تابندہ تر: زیادہ چمکدار ۔ سفر: مراد زندگی ۔
مطلب: اے ماں ! یہاں پر بھی تیری زندگی چاند کی روشنی سے بھی زیادہ منور تھی اور تیرا سفر حیات صبح کے ستارے سے بھی زیادہ آسودگی کا مظہر تھا ۔

 
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

معانی: مثلِ ایوانِ سحر: صبح کے محل کی طرح، مراد صبح کی روشنی کی طرح ۔ فروزاں : روشن ۔ خاکی شبستاں : مٹی کا شبستان، رات گزارنے کی جگہ یعنی قبر ۔
مطلب: اے ماں ! خدا کرے صبح کے مانند تیری قبر بھی منور اور روشن رہے اور تیری آخری آرام گاہ نور سے معمور ہے ۔

 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہَ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

معانی: لحد: قبر ۔ شبنم افشانی: اوس بکھیرنا ۔ سبزہَ نورستہ: تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ ۔ اس گھر: یعنی ماں کی قبر ۔
مطلب: اے عظیم ماں ! بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوں کہ تیری قبر پر آسمان شبنم برسائے اور اس کی نگہبانی تازہ اگا ہوا سبزہ کرے ۔