تقدیر
نا اہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت ہے خوار زمانے میں کبھی جوہرِ ذاتی
معانی: نا اہل: نالائق ۔ قوت و جبروت: قوت و عظمت ۔ جوہر ذاتی: ذاتی خوبی ۔
مطلب: عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو نالائق ہوتے ہیں اور ان میں کوئی ذاتی صلاحیت نہیں ہوتی وہ طاقت ، عظمت اور ہیبت کے مالک بن جاتے ہیں اور حکومت کے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور اس کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ذاتی قابلیت رکھتے ہیں اور اللہ نے جنہیں ذاتی صلاحیتیں عطا کی ہوئی ہیں وہ زمانے میں ذلیل و خوار دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ تقدیر کے متعلق ایک عام نقطہ نظر ہے جو علامہ نے اس شعر میں پیش کیا ہے ۔
شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں تقدیر نہیں تابعِ منطق نظر آتی
معانی: منطق: نطق سے، یعنی دلیل سے سمجھائی گئی بات ۔ نہاں : پوشیدہ ۔ تقدیر: اللہ کا فیصلہ ۔
مطلب: نا اہل کے کامیاب اور اہل کے ناکام ہونے کے پیچھے شاید کوئی علم معقول یا دلیل کی بات پوشیدہ ہو لیکن میرے خیال میں تقدیر جو ہے وہ منطق کے زیر فرمان نظر نہیں آتی ۔ اس کا معاملہ ہی اور ہے ۔
ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو تاریخِ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی
معانی: تاریخ امم: امتوں کی تاریخ ۔
مطلب: اقبال نے دوسرے شعر میں یہ بات بیان کی ہے کہ شاید اہل اور نا اہل کی تقدیر میں کوئی منطق چھپی ہوئی ہو ۔ لیکن اس تیسرے شعر میں کہتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جو سب کو معلوم ہے اور یہ حقیقت قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے صاف ظاہر ہے ۔ جو قو میں عمل سے محروم ہوتی ہیں وہ ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں یہ بات اقوام کی تاریخ سے بالکل عیاں ہے ۔
ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی براّں صفتِ تیغِ دو پیکر نظر اس کی
معانی: براّں : تیکھا ۔ کاٹنے والا ۔ تیغِ دو پیکر: دو دھاری تلوار ۔
مطلب: اقبال نے اس شعر میں تقدیر کا صحیح مفہوم بتاتے ہوئے کہا ہے کہ تقدیر ہر لمحہ قوموں کے اعمال پر نظر رکھتی ہے ۔ تقدیر دو دھاری تلوار کی مانند ہے جو اہل عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے اور بے عملوں کو ناکامی کا منہ دکھاتی ہے ۔ اقبال کے نزدیک تقدیر کا وہ مفہوم جو عوام کے ذہن میں ہے کہ نا اہل پھلتے پھولتے ہیں اور اہل خوار نظر آتے ہیں بالکل غلط ہے ۔ تقدیر بندوں کے اپنے اعمال کے نتیجے میں بنتی ہے ۔