Please wait..

ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
(۱۵)

 
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ

معانی: ضمیر: دل ۔ تاجرانہ: تجارت کرنے والوں کی طرح کی ۔ راہبانہ: راہبوں کی طرح کی ۔ ترک دنیا کی ۔ دگرگوں : بدل جانا ۔ لحظہ لحظہ: لمحہ لمحہ ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے ملا ضیغم کی زبان سے عہد حاضر کی اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ مغرب والوں کی ذہنیت تاجروں کی سی ہے جو ہر وقت دولت کمانے میں لگے رہتے ہیں اور اس کے لیے خدا کو بھول کر دنیا کو پورے طور پر گلے لگائے ہوئے ۔ ان کے برعکس مشرق والے دنیا کو ترک کر کے بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہیں ۔ دنیا سے دلچسپی کی بنا پر یورپ والے ہر لمحہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ ان کا ہر دوسری لمحہ پہلے لمحے سے بہتر ہوتا ہے ۔ لیکن مشرق والوں پر جمود طاری ہے وہ جس بدحالی میں ہیں اس سے نکلنے کی نہیں سوچتے ۔ علامہ کا یہاں یہ بھی مقصود ہے کہ جب مغرب والے دنیا کے اور مشرق والے ترک دنیا کے بتوں کے پجاری بنے ہوئے ہیں ۔ تو دونوں کی زندگیاں قوانین الہیہ کے خلاف ہیں ۔ پہلے مادہ پرست اور دوسرے رہبانیت پرست بن گئے ہیں ۔ اے مسلمان اصل ضابطہ حیات تیرے پاس ہے جس میں دین اور دنیا دونوں کی بھلائی کے طریقے موجود ہیں ۔ مسلمان نہ دنیا کو اپنے اوپر مسلط کرتا ہے اور نہ دنیا سے کنارہ کش ہوتا ہے ۔ بلکہ دنیا کو اپنے دین کے تابع رکھ کر زندگی گزارتا ہے اور یہی مقصود فطرت اور منشائے اسلام ہے جو کہ فطری مذہب ہے ۔

 
کنارِ دریا خضر نے مجھ سے کہا باندازِ محرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ

معانی: کنار دریا: دریا کے کنارے ۔ بانداز محرمانہ: دوستانہ طریقے سے ۔ سکندری: سکندر کی طرح کی طاقت کا ہونا، سکندر یونان کا مشہور فاتح تھا ۔ قلندری: قلندر کی طرح کی دنیا سے بے نیازی ۔ ساحرانہ: جادوگری کے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے سکندری اور قلندری کو اصل مفہوم کے بجائے کنائے کے طور پر پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ سکندری (بادشاہت) اور قلندری (روحانیت) دونوں جادوگری کے طریقے ہیں جن کے ذریعے بادشاہ اور درویش بھولے بھالے اور سادہ دل بندگان کو اپنے اپنے فریب میں مبتلا کر کے ان کو غلامی اور مسکینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ یہاں درویشیوں سے مراد دنیا کو ترک کر دینے والے درویش ہیں ۔ اقبال نے اس شعر میں بازبان ملا ضیغم شاعرانہ انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات مجھے باطن کا علم رکھنے والے ولی خضر نے دریا کے کنارے ایک ملاقات میں بتائی ہے اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے وہ سچ اور حققیت ہے ۔

 
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں ، مجھے خدایانِ خانقاہی
انھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ

معانی: حریف: مدمقابل، دشمن ۔ خدایانِ خانقاہی: خانقاہ کے خدا، مراد گدی نشین ۔ شق: ٹوٹ جائے ۔ سنگ آستانہ: دہلیز کا پتھر ۔
مطلب: وہ لوگ جو خانقاہوں ، مزاروں اور درگاہوں پر اپنے بزرگوں کو مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں اور روحانی، اخلاقی اور انسانی ہر اعتبار سے نا اہل ہیں ۔ وہ اپنے مریدوں کو راہ ہدایت پر رکھنے اور اللہ سے وابستہ کرنے کی بجائے ان کو لوٹ رہے ہیں پیری اور مریدی کو انھوں نے پیشہ بنا رکھا ہے وہ اپنے بزرگوں کی روحانی وراثت کے وارث بالکل نہیں ہیں ۔ میں چونکہ یہ حقیقت بھولے بھالے اور سادہ دل مسلمانوں پر واضح کر رہا ہوں اور ان کو ان نا اہل گدی نشینوں اور جاہل پیروں کے فریب کے جال میں آنے سے روک رہا ہوں ۔ اس لیے آج کے پیر اور گدی نشین مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ انہیں ڈر ہے کہ میرے پیغام کی وجہ سے ان کی دہلیز کا پتھر ریزہ ریزہ نہ ہو جائے ۔ مراد ہے کہ ان کی جھوٹی پیری کا پول نہ کھل جائے اور اس طرح ان کی عقیدت مند ان سے باغی نہ ہو جائیں اور انہیں اپنی لوٹ گھسوٹ اور جھوٹی عزت و جاہ سے محروم نہ ہونا پڑے اور اس طرح ان کی عیش و عشرت کی زندگی میں خلل نہ آ جائے ۔

 
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا
ز میں اگر تنگ ہے تو کیا ہے فضائے گردوں ہے بے کرانہ

معانی: علم و عرفاں : ظاہری علم اور باطنی علم ۔ رمز آشکارا: صاف سامنے آنے والا بھید ۔ گردوں : آسماں ۔ بے کرانہ: جس کا کوئی کنارہ نہیں ۔
مطلب: غلام قوموں کے علم ظاہری کا یہ بھید کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ کر خود کو تسلی دے دیتی ہیں کہ اگر ہمیں دنیاوی حکومت اور سرفرازی حاصل نہیں ہے تو کیا ہوا آسمان کی فضا تو ایسی ہے جس کا کوئی کنارا نہیں ۔ اس میں زندگی بسر کر لیں گے ۔ وہ خیالی پلاوَ پکا کر اپنی محکومی کا جواز نکال لیتی ہے ۔ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ غلام قو میں دنیا کی حکمرانی اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے دنیاوی فوائد کے حصول کی بجائے یہ کہہ کر اپنی تسکین کر لیتی ہیں کہ ظاہری دنیا نہ وہی روحانی دنیا ہی سہی ۔ ہم ادھر خود کو مشغول کر لیں گے اور اس طرح وہ تارک الدنیا ہو کر گزر اوقات کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد اور نصب العین بنا لیتی ہیں ۔

 
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ

معانی: خبر نہیں : معلوم نہیں ۔ خدا فریبی: خدا کو فریب دینا ۔ خود فریبی: اپنے آپ کو فریب دینا ۔ فارغ ہونا: الگ ہو جانا ۔ تقدیر: قسمت ۔
مطلب: عہد حاضر کے مسلمانوں میں تقدیر (قسمت ، نصیب) کا یہ غلط مفہوم پیدا ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہونا ہے وہ خدا نے ان کی قسمت میں پہلے سے لکھ دیا ہے اس لیے ہمیں کوشش اور عمل سے اس کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر خدا کو منظور ہواتو وہ خود ہی اسے بدل دے گا ۔ اس غلط عقیدہ کی وجہ سے وہ عمل سے کنارہ کش ہو چکا ہے ۔ اب میں ا س عقیدے کو کیا نام دوں ۔ اسے اپنے آپ کو فریب دینے والا عقیدہ کہوں یا خدا کو فریب دینے والا عقیدہ کہوں ۔ اصل میں یہ دونوں کو فریب دے رہے ہیں ۔ خدا کو اس کی پیدا کردہ تقدیر کا غلط مفہوم دے کر اورخود کو اس بنا پر بے عملی سے دوچار کر کے ۔

 
مری اسیری پہ شاخِ گل نے یہ کہہ کے صیاد کو رُلایا
کہ ایسے پرُسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ

معانی: اسیری: قید ۔ شاخِ گل: پھول کی ٹہنی ۔ صیاد: شکاری ۔ پرسوز نغمہ خواں : جس کے نغموں میں سوز ہو، حرارت ہو ۔ گراں : بھاری ۔ آشیانہ: نشیمن، گھونسلہ ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے کہا ہے کہ شکاری نے مجھ بلبل کو گلاب کی ٹہنی سے پکڑ کر جب پنجرے میں قید کر لیا تو گلاب کے پھولوں نے قید کرنے والے کو یہ کہہ کر رلا دیا کہ اس بلبل کا گھونسلہ ہماری ٹہنی پر کوئی بوجھ نہیں تھا ۔ مراد ہے کہ جب قوم کے راہنما کو اس کی حق گوئی پر حکومت وقت گرفتار کر لیتی ہے تو اس قوم کے لوگ واویلا کرتے ہیں جس کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت خود بھی اس کو رہا کرنے پر سوچنے لگتی ہے ۔ اس میں کشمیر میں ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ان کے راہنماؤں کی پکڑ دھکڑ اور پھر بعض اوقات رعایا کے مطالبہ پر اس کو خوش کرنے کے لیے حکومت کے ان کو چھوڑنے پر آمادہ ہو جانے کی طرف اشارہ ہے ۔

(۱۶)

 
حاجت نہیں اے خطہَ گل شرح و بیاں کی
تصویر ہمارے دل پُرخوں کی ہے لالہ

مطلب: حاجت: ضرورت ۔ خطہ گل: پھولوں کا علاقہ، وادی کشمیر مراد ہے ۔ پرخوں : خون سے بھرا ہوا ۔ لالہ: لالے کا پھول جو خون کے رنگ کی طرح سرخ ہوتا ہے ۔
مطلب: ریاست کشمیر میں ہندو ڈوگرہ راج نے مسلمانوں کو جس بدحالی سے دوچار کر رکھا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ اے میرے پھولوں سے سجے ہوئے علاقے تجھے اپنی داستان بیان کرنے اور اس داستان کی تفصیل سے مجھے آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں اس سے پہلے ہی واقف ہوں ۔ اور تیری بدحالی اور زبوں حالی دیکھ کر اور سن کر میرا دل لالے کے پھول کی طرح خون سے بھرا ہوا ہے ۔ مجھ پر انتہائی غم اور بے چینی کی حالت طاری ہے ۔

 
تقدیر ہے اک نام مکافاتِ عمل کا
دیتے ہیں یہ پیغام خدایانِ ہمالہ

معانی: تقدیر: قسمت ۔ مکافات عمل: عمل کا بدلہ ۔ خدایان ہمالہ: ہمالہ کے آقا ۔ ہمالہ: برصغیر کے شمال میں ایک بلند پہاڑ کا نام ہے ۔
مطلب: خدایان ہمالہ سے ایک تو مراد وہ رشی ، سادھو وغیرہ ہیں جو ہمالہ کے پہاڑوں میں رہتے ہیں اور ہندو ان کو اپنے روحانی پیشو ا سمجھتے ہیں ۔ دوسری مراد کشمیر کے حکمرانوں سے ہے جو ہندو دھرم سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ کشمیر کا علاقہ چونکہ ہمالہ پہاڑ کے سلسلے میں واقع ہے اس لیے خدایان ہمالہ سے مراد کشمیر کے حکمران بھی ہو سکتے ہیں ۔ آدمی کی تقدیر اس کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے ۔ اس عقیدہ کے تحت ہندودھرم کے راہنما یا کشمیر کا ہندو راجہ دونوں کشمیر کے مسلمان کو یہ کہہ کر عمل سے بے گانہ رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اگر وہ غلام ہیں ، پسماندہ ہیں اور بدحال ہیں تو یہ ان کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے اور چونکہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ایک اٹل اصول ہے اس لیے تم اپنی مجبور اور غلام زندگی پر قناعت کرو ۔

سرما کی ہواؤں میں ہے عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہُنر جس کا امیروں کو دوشالہ

معانی: سرما: سردی ۔ عریاں : ننگا ۔ دوشالہ: ایک قسم کی اونی چادر ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے کشمیری مسلمانوں کی اس غربت اور بدحالی کی طرف اشارہ کیا ہے جو کشمیر کے ہندو حکمرانوں کے کشمیر کے جملہ وسائل کو اپنی اور اپنی قوم کی ترقی کے لیے استعمال کرنے اور کشمیریوں کو ان سے محروم رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔ بدحالی کی سینکڑوں مثالوں میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ وہ کشمیری ہنر مند جو گرم چادریں اور اونی کمبل تیار کرتا ہے اور امیروں کے تن ڈھانپنے کے کام آتے ہیں اور وہ خود اس قابل نہیں ہوتا کہ سخت سردی کے موسم میں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے مہیا کر سکے ۔

 
اُمید نہ رکھ دولتِ دنیا سے وفا کی
رَم اس کی طبیعت میں ہے مانندِ غزالہ

معانی: وفا: دوستی رکھنا ۔ رم: دوڑنا ۔ طبیعت: مزاج ۔ غزالہ: ہرن کی طرح ۔
مطلب: یہاں اقبال ایک اصول بیان کرتے ہیں کہ دولت ہمیشہ کسی کا ساتھ نہیں دیتی ۔ جس طرح ہرن آدمی کو یا شکاری کو دیکھ کر بھاگ نکلتا ہے اسی طرح دولت بھی بعض ناسازگار حالات پیدا ہو جانے پر آدمی سے چلی جاتی ہے ۔ دنیا اور اس کی دولت کسی سے مستقل دوستی نہیں رکھتی اس لیے اے کشمیری مسلمان نا امید نہ ہو اگر آج تو اپنے حکمرانوں کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے تو کل حکمران بدحال ہو سکتے ہیں اور دولت و حکومت تیرے پاس آ سکتی ہے ۔ شرط یہ ہے کہ تو اس بات پر یقین رکھے اور اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرے ۔

(۱۷)

 
خود آگاہی نے سکھلا دی ہے جس کو تن فراموشی
حرام آئی ہے اس مردِ مجاہد پر زرہ پوشی

معانی: خود آگاہی: خود سے آگاہ ہونا ۔ تن فراموشی: جسم کو بھول جانا ۔ حرام: ناجائز ۔ مرد مجاہد: جہاد کرنے والا ۔ زرہ پوشی: لوہے کا لباس جو جنگ کے وقت سپاہی پہنتے ہیں ۔
مطلب: وہ مرد مسلمان جو اپنی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس کا جسم اس کا اپنا نہیں بلکہ اس ہستی کا ہے جس کی صفات کا وہ مظہر ہے تو پھر وہ تن کو بچانے کی فکر کے بجائے اسے اس کے اصل مالک کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔ وہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے اسباب کے ہونے کو بھی نہیں دیکھتا ۔ وقت آنے پر بے تیغ بھی لڑ جاتا ہے وہ اپنے جسم کو بچانے کے لیے زرہ سے بھی کام نہیں لیتا کیونکہ اسے جسم کی نہیں اللہ کی رضا کی فکر ہوتی ہے

(۱۸)

 
آں عزمِ بلند آور، آں سوزِ جگر آور
شمشیرِ پدر خواہی، بازوئے پدر آور

مطلب: آں : وہ ۔ عزم بلند: بلند ارادہ ۔ آور: لا ۔ سوزجگر: جگر کی حرارت ۔ شمشیر پدر: باپ کی تلوار ۔ پدر: باپ ۔ خواہی: تو چاہتا ہے ۔ بازوئے پدر: باپ کا بازو ۔
مطلب: اگر تو اپنے بڑوں کی عزت پانا چاہتا ہے تو پھر ان جیسے بلند ارادے اور بلند جذبے بھی پیدا کر یعنی ان جیسا عمل بھی کر کے دکھا ۔ اس شعر میں علامہ نے بہ زبان ملا ضیغم کشمیر کے غلام مسلمانوں کو آزاد رہنے کا ایک گر بتایا ہے اور کہا ہے کہ اگر تم اپنے باپ کی تلوار چاہتے ہو تو اپنے باپ کا سا مضبوط بازو، بلند ارادہ اور حرارت جگر بھی پیدا کرو ۔ اپنے آبا و اجداد کی مانند آزاد زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تم میں آزادی حاصل کرنے کا بلند ارادہ پیدا ہو پھر اس بلند ارادے کو عملی شکل دینے کے لیے تم میں تپش اور عشق کا جذبہ کارفرما ہو ۔ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی تو پھر تم اس قابل ہو سکو گے کہ اپنے باپ دادا کی طرح جہاد کر کے اور تلوار کو قوت کے ذریعے اپنی قسمت بدل ڈالو اور غلامی کی زنجیریں کاٹ کر آزاد ہو جاوَ ۔ محض خالی نعروں تقریروں ، جلسوں، جلوسوں اور مطالبوں سے تیرا آزاد ہونا ممکن نہیں ۔

(۱۹)

 
غریبِ شہر ہوں میں سُن تو لے مری فریاد
کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد

مطلب: اس شعر میں ملا ضیغم لولابی کی زبان سے علامہ اقبال نے اہل کشمیر کو یہ کہا ہے کہ میں تمہارے لیے اجنبی ہوں ۔ اجنبی اس اعتبار سے کہ میرے آباء و اجداد مدت ہوئی کشمیر سے نقل مکانی کر کے برصغیر کے شمالی صوبہ پنجاب میں آباد ہو گئے تھے اور میرا اب تعلق تمہیں کشمیر کی بجائے پنجاب سے نظر آئے گا لیکن میرا دل اب بھی تمہارے ساتھ دھڑکتا ہے ۔ اس لیے تم میری نالہ کشی اور میری آہ و زاری سے جو میں اپنی شاعری کے ذریعے کر رہا ہوں اجنبی نہ رہو اس پر کان دھرو ۔ اور دیکھو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔ جب تم میرے ان نالوں اور فریادوں پر کان دھرو گے جو میں نے اپنی شاعری کے ذریعے کی ہیں تو تمہارے سینے میں بھی وہ اضطراب پیدا ہو جائے گا جو میرے سینے میں ہے اور اس طرح تم اپنی قسمت کو بدلنے اور آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی آرزو کرنے لگو گے ۔

 
مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد

معانی: نوائے غم آلود: غم سے بھری ہوئی آواز ۔ متاع عزیز: قیمتی دولت ۔ دولت دل ناشاد: ایسے دل کی دولت جو غم زدہ ہو ۔ جہاں : دنیا ۔
مطلب: وہ دل جو اپنی بجائے دوسروں کا اور اپنی قوم کا غم کھاتا ہو دنیا میں عام نہیں ہے ۔ وہ کسی کسی کے پاس ہوتا ہے اللہ نے مجھ ایسا دل دیا ہے جو قوم کے غم سے بھرا ہوا ہے ۔ اس دل سے جو آواز پیدا ہو رہی ہے اور جسے میں اپنی شاعری کی صورت میں تم تک پہنچا رہا ہوں بہت قیمتی دولت ہے ۔ اے کشمیر کے مسلمان اسے سمیٹ لے اور اس سے اپنے دل کی کیفیات بدل لے ۔

 
گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے
سمجھتا ہے مری محنت کو محنتِ فرہاد

معانی: گلہ: شکایت ۔ زمانہ: دنیا، اہل دنیا ۔ کور ذوقی: ذوق کا اندھا ہونا ۔ محنت: سرگرمی، ریاضت ۔ فرہاد: ایران کا ایک شخص جو شیریں نامی ایک عورت پر عاشق تھا ۔ اس وقت کا بادشاہ پرویز بھی شیریں کو اپنے گھر ڈالنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے فرہاد کے خاتمے اور اس سے شیریں کو چھین لینے کی یہ تدبیر کی کہ اسے کہا کہ اگرتو پہاڑ سے پانی کی نہر کھود کر لے آئے گا تو شیریں مل جائے گی ۔ فرہاد نے اس وعدہ پر پہاڑ کھودنا شروع کر دیا لیکن شیریں کی موت کی اس جھوٹی خبر کو سن کر جو پرویز نے اڑائی تھی وہ اپنے سر پر تیشہ مار کر مر گیا ۔ اس طرح شیریں پرویز کی ہو گئی ۔
مطلب: اپنی سالہا سال کی اس محنت کا پھل نہ پا کر جو علامہ نے اپنی شاعری کی صورت میں مسلمان قوم کو جگانے کے لیے کی تھی وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ مجھے دنیا والوں کے اندھے ذوق سے شکایت ہے ۔ اگر ان میں ذوق ہوتا تو میری شاعری پر ضرور کان دھرتے ۔ وہ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے شاعری کے ذریعے جو مشقت اٹھائی ہے وہ بھی فرہاد کی طرح کی غرض مند ہے ۔ حالانکہ فرہاد نے ایک عورت کو حاصل کرنے کے لیے اور نفسانی غرض کی خاطر محنت کی تھی ۔ میری محنت میں تو غرض کی کوئی آلائش نہیں ۔ اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں ۔ میں نے تو یہ سب کچھ ان کے مفاد کے لیے کیا ہے لیکن وہ ہیں کہ اس پر کان نہیں دھر رہے اگر کان دھرتے اور میرے پیغام پر عمل کرتے تو میں سمجھ لیتا کہ مجھے میری محنت کا صلہ مل گیا ہے ۔

 
صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگر است
خبر بگیر کہ آوازِ تیشہ و جگر است

معانی:صدائے تیشہ: ہتھوڑے کی آواز ۔ تیشہ: ہتھوڑا ۔ بر: پر ۔ سنگ: پتھر ۔ دگر: اور ۔ است: ہے ۔ خبر بگیر: معلوم ہوا ۔ آواز تیشہ و جگر: ہتھوڑے اور جگر کی آواز ۔
مطلب: یہ شعر برصغیر کے مشہور فارسی شاعر اور نقشبندیہ بزرگ حضرت مرزا مظہر جان جاناں کا ہے جو اورنگ زیب کی وفات کے بعد کی مغلیہ در زوال کی دلی میں رہتے تھے ۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ آواز جو ہتھوڑے کے پتھر پر پڑنے سے نکلتی ہے وہ اور ہے اور جو جگر پر پڑنے سے نکلتی ہے وہ اور ہے ۔ علامہ نے اس شعر کے مضمون کے حوالے سے کہا ہے کہ اس قدر افسوس کی بات ہے کہ تم فرہاد کی محنت کو اور میری محنت کو ایک جیسا سمجھتے ہو فرہاد نے تو پھر یہ ضربیں لگائی تھیں میں جگر پر لگا رہا ہوں ۔ فرہاد نے تو ایک عورت کے حصول کے لیے تیشہ چلایا تھا میں قوم کو جگانے کے لیے شعر لکھ رہا ہوں ۔ اے کاش میری قوم اس فرق کو سمجھے اور میرے کلام اور اس میں دیے گئے پیغام کی طرف دھیان دے ۔