سینما
وہی بت فروشی، وہی بت گری ہے سینما ہے یا صنعتِ آزری ہے
معانی: سینما: فلمیں دکھانے کا مرکز ۔ بت فروشی: بت بیچنا ۔ بت گری: بت بنانا ۔ آزری: بت سازی کی صنعت ۔
مطلب: چار اشعار کی اس نظم میں اقبال سینما کی شدید مذمت کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ ایک سیدھی سادی سی نظم ہے جس میں وہ فرماتے ہیں حضرت ابراہیم کو تو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ پیغمبر بھی بنے اور خلیل اللہ کا لقب بھی پایا ۔ جب کہ ان کے چچا آزر اپنے عہد کے ممتاز بت تراش تھے اور اس حیثیت سے ان کا نام آج بھی تاریخ کی زینت ہے جس طرح آزر بت تراش کر ان کی تجارت کیا کرتے تھے آج کے عہد میں سینما بھی اسی نوعیت کی صنعت و تجارت ہے ۔ آزر بت تراش کر روپیہ کماتے تھے اب سینما میں فلمیں دکھا کر دولت کمائی جاتی ہے ۔ اس اعتبار سے ان دونوں کے مابین کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ۔
وہ صنعت نہ تھی، شیوہَ کافری تھا یہ صنعت نہیں ، شیوہَ ساحری ہے
معانی: صنعت: کاریگری ۔ شیوہ: طریقہ ۔ ساحری: جادو کا طریقہ ۔
مطلب: بت تراشی عملاً صنعت نہیں بلکہ کافری کا ایک طریق کار تھا ۔ جب کہ سینما بھی کوئی صنعت نہیں ہے بلکہ عملاً جادوگری ہے ۔
وہ مذہب تھا اقوامِ عہد کہن کا یہ تہذیبِ حاضر کی سوداگری ہے
معانی: اگر آزر کو بت تراشی کو عہد قدیم کے لوگوں کا مذہبی عقیدہ تصور کر لیا جائے کہ وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے تو سینما بھی اس سے کچھ کم نہیں کہ یہ دور حاضر کی تہذیب کی تجارت ہے ۔
وہ دنیا کی مٹی، یہ دوزخ کی مٹی وہ بت خانہ خاکی، یہ خاکستری ہے
مطلب: آخری بات یہ کہ بت تراشی تو دنیا کی مٹی سے عبارت تھی جب کہ سینما کی حیثیت تود وزخ سے کم نہیں کہ وہاں بھی گمراہوں کو بھیجا جائے گا اور یہاں بھی گمراہ لوگ جاتے ہیں ۔