غزل
ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
معانی: منزل مقصود: مقصد کی منزل ۔ سراغ: نشان ۔ شب: رات ۔ چیتا: ایک درندے کا نام ۔ چراغ: دیا ۔
مطلب: چیتا ایک درندہ ہے جس کی آنکھیں رات کے اندھیرے میں دیئے کی طرح روشن دکھائی دیتی ہیں اور ساتھ ہی وہ اندھیرے میں دیکھنے کی طاقت بھی رکھتا ہے ۔ علامہ نے اس کو تشبییہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس شخص کو اپنے مقصد کی منزل کا نشان مل سکتا ہے جس کی آنکھیں رات کے اندھیرے میں چیتے کی آنکھوں کی طرح روشن اور دیکھنے والی ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ وہ شخص مشکلات کے اندھیرو ں سے نہ گھبرائے اور چیتے جیسے حوصلے سے اور اس جیسی تیز نظر پیدا کر کے آگے بڑھتا جائے ۔
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیں ہے بندہَ حر کے لیے جہاں میں فراغ
معانی: بندہَ حر: آزاد بندہ ۔ فراغ: فراغت، فرصت ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے غلام اور آزاد بندے کی مصروفیات کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ جو بندہ غلام ہوتا ہے اس کی فرصت ہی فرصت ہوتی ہے کیونکہ اس کی نہ آرزو اپنی ہوتی ہے اور نہ کوئی مقصد اس کے سامنے ہوتا ہے جس کے حصول کے لیے وہ تگ و دو کرے ۔ اس کے مقابلے میں آزاد بندہ ایک لمحے کے لیے بھی فارغ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہر وقت اپنے مقاصد کے حصول اور منازل تک پہنچنے کی دوڑ دھوپ میں لگا رہتا ہے ۔
فروغِ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے تری نظر کا نگہباں ہو صاحبِ مازاغ
معانی: فروغ: ترقی، سربلندی ۔ خیرہ کرنا: آنکھوں کو چندھیانا ۔ صاحبِ مازاغ: حضرت محمد ﷺ مازاغ سورۃ النجم کی ایک آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں شب معراج کا اشارۃً ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے ما زاغ البصر وما طغی کہ نبی ﷺ کی نظر نے جو کچھ دیکھا وہ بالکل درست دیکھا ۔ ان کی نگاہ نہ ادھر سے ادھر ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ۔
مطلب: اہل مغرب نے جو بھی اور جیسی بھی ترقی کی ہے علامہ اقبال اسے فطرت میں مداخلت سمجھتے ہیں ۔ ا س ترقی نے چونکہ انسان کو انسان نہیں رہنے دیا اس لیے علامہ مسلمان کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری نظریں اہل مغرب کی ترقی اور سربلندی دیکھ کر چندھیا رہی ہیں حالانکہ یہ ترقی ترقی نہیں انسانی زوال کا دوسرا نام ہے ۔ اس لیے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہستی جس کی نظر نے شب معراج سب کچھ دیکھا اور سچ دیکھا یعنی حضرت محمد ﷺ کی ہستی تیری نگہبان ہو اور تجھے صحیح نظر سے مغربیوں کی ترقی دیکھنے کی توفیق نصیب کرے ۔
وہ بزمِ عیش ہے مہمانِ یک نفس دو نفس چمک رہے ہیں مثالِ ستارہ جس کے ایاغ
معانی: بزم عیش: عیش کی محفل ۔ ایاغ: پیالے ۔
مطلب: اس شعر میں بھی اہل مغرب کی غیر فطری ترقی کی طرف ہی اشارہ کیا ہے جس نے خود ان کو اور دوسروں کو بھی پیدائش انسانی کا اصل مقصد بھلا کر دنیاوی عیش و عشرت میں مشغول کر دیا ہے ۔ علامہ کہتے ہیں کہ عیش و عشرت کی مجلس چاہے اس کے شراب بھرے پیالے ستاروں کی مانند ہی کیوں نہ چمک رہے ہوں صرف ایک دو لمحوں کی مہمان ہوتی ہے یعنی جلد ختم ہو جاتی ہے اس لیے آدمی کو اپنی پیدائش کا اصل مقصد سامنے رکھنا چاہیے اور عیش و عشرت کی ظاہری چکا چوند میں نہیں آنا چاہیے ۔ ان کے نزدیک ترقی یافتہ، مغرب فطرت کے مقاصد سے چونکہ ہٹا ہوا ہے اس لیے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا ۔
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
معانی: کور ذوق: اندھا ذوق، برے ذوق یا لذت سے نا آشنا ۔ صبا: صبح کی نرم و لطیف ہوا جو غنچوں کو کھلا کر پھول بناتی ہے ۔ بوئے گل: گلاب کے پھولوں کی خوشبو ۔ سراغ: پتہ، نشان ۔
مطلب: صبح کی پھول کھلانے والی نرم و لطیف ہوا جب گلاب کے پھولوں کے باغ سے آتی ہے تو اپنے ساتھ خوشبو بھی لاتی ہے جس کا ناک بند نہ ہو وہ اس خوشبو کو محسوس کرتا ہے لیکن بند ناک والے کو اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ اس مثال سے علامہ نے اس شعر میں مسلمان نوجوانوں کو کہا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تیرے ذوق کا ناک بھی بند ہے اور تو ذوق نا آشنا ہو گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تو ایسی کتابیں پڑھتا ہے جو اہل مغرب نے اپنی تہذیب و ثقافت کو تم میں پھیلانے کے لیے لکھی ہیں اور مدرسوں کے نصابوں میں داخل کی ہیں ۔ ان کتابوں سے ہٹ کر دیکھ کہ مغرب کی ترقی واقعی ترقی ہے یا زوال ہے ۔