Please wait..

فلسفہَ غم
(میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کے نام )

 
گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی

معانی: میاں فضل حسین: علامہ اقبال کے ہم جماعت جن کے والد کی وفات پر یہ نظم لکھی ۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ۔ کیفِ عشرت: مزے اڑانے کا نشہ ۔ سحاب: بادل ۔
مطلب: ہر چند کہ حیات انسانی سر تا پا کیف و عشرت کے علاوہ مسرت و شادمانی کے متقاضی ہے اس کے باوجود اس میں غم و اندوہ اور آنسو بھی موجود ہیں ۔

 
موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی
ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی

معانی: حباب: بلبلا ۔ الم: قرآن کریم کی سورہ ، نیز بمعنی رنج، دکھ ۔
مطلب: اگر غم و اندوہ کو ایک موج تصور کر لیا جائے اور زندگی کو حباب تو جان لو پانی کا یہ قطرہ موج غم پر رقص کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر زندگی کو ایک کتاب سے تعبیر کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ غم اس کتاب کا ایک اہم باب ہے ۔

 
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل وہ بلبل ہی نہیں

معانی: خزاں نادیدہ: جس نے خزاں نہ دیکھی ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ کسی پھول میں ایک پتی بھی کم ہو جائے تو اسے مکمل پھول نہیں سمجھا جا سکتا ۔ مزید برآں کسی بلبل کو خزاں سے واسطہ نہیں پڑا تو وہ بلبل کہلانے کی مستحق نہیں ۔

 
آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں
نغمہَ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں

معانی: نغمہ انسانیت: انسانیت کا ترانہ، گیت، مراد خود انسان ۔ غیر ازفغاں : فریاد، رونے کے سوا ۔
مطلب: عملی سطح پر انسانی دل کی داستاں خواہشات اور تمناؤں کے خون سے رنگی ہوئی ہے یعنی انسانی خواہشات کی تکمیل ممکنات سے نہیں اسی طرح انسانی زندگی میں خوشی، غم کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔

 
دیدہ بینا میں داغِ غم چراغ سینہ ہے
رُوح کو سامانِ زینت آہ کا آئینہ ہے

معانی: دیدہَ بینا: مراد بصیرت والی نگاہ ۔ داغِ غم: دکھ کا زخم ۔ چراغ سینہ: مراد دل کو روشن کرنے والا ۔ سامان زینت: سجاوٹ کا باعث ۔
مطلب: اہل نظر کے لیے غموں کے داغ ان کے سینوں پر چراغ کے مانند ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جب دل سے آہ نکلتی ہے تو وہ روح کی تزئین کا سبب بن جاتی ہے ۔

 
حادثاتِ غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینہ دل کے لیے گردِ ملال

معانی: غازہ: سرخی ۔ گردِ ملال: دکھ کی خاک ۔
مطلب: ایک طرح سے حادثات غم کے بغیر فطرت انسانی کو کمال حاصل نہیں ہو سکتا ۔ یہی نہیں بلکہ غم و ملال کی گرد دل کے آئینے پر غازہ کی مانند ہوتی ہے ۔

 
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے

معانی: لطف خواب: نیند کا مزہ ۔ مضراب: ستار بجانے کا چھلا ۔
مطلب: حد تو یہ ہے کہ عالم شباب جو ہمیشہ کیف و سرمستی کے سبب ایک طرح محو خواب رہتا ہے اسے بیدار کرنے میں بھی غم کا بڑا عمل دخل ہے کہ یہ ساز اسی مضراب سے نغمے پیدا کرتا ہے ۔

 
طائرِ دل کے لیے غم شہپرِ پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل، غم انکشافِ راز ہے

معانی: شہپر پرواز: اڑنے کے بڑے پر ۔ انکشاف راز: بھید کھل جانا، ظاہر ہو جانا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں اگر دل کو ایک پرندہ تصور کر لیا جائے تو یہ غم کی کیفیت ہی ہے جو اس کی پرواز کے لیے پروں کا درجہ رکھتی ہے ۔ اور اگر انسان کے دل کو ایک راز سمجھ لیا جائے تو اس راز کا انکشاف غم کے باعث ہی ہوتا ۔

 
غم نہیں غم، روح کا ایک نغمہَ خاموش ہے
جو سرودِ بربطِ ہستی سے ہم آغوش ہے

معانی: سرود: گیت، نغمہ ۔ بربطِ ہستی: زندگی کا باجا، زندگی ۔ ہم آغوش: مراد ساتھ ملا ہوا ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ غم کی کیفیت روح انسانی کے لیے ایک خاموش نغمے کی مانند ہے ایسا نغمہ جو سازوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے جو انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

 
شام جس کی آشنائے نالہَ یارب ، نہیں
جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں

معانی: نالہَ یارب: اللہ کے حضور فریاد ۔ جلوہ پیرا: مراد موجود ۔ کوکب: ستارے ۔
مطلب: جو شخص بوقت شام نالہ و فریاد نہیں کرتا اور شب کی تنہائی میں جور و درد کے سبب آنسو نہیں بہاتا ۔

 
جس کا جامِ دل، شکستِ غم سے ہے نا آشنا
جو سدا مستِ شرابِ عیش و عشرت ہی رہا

معانی: شکست: ٹوٹ پھوٹ ۔ سدا: ہمیشہ ۔ شرابِ عیش و عشرت: مراد خوشیوں ، مسرتوں اور مزے کی زندگی ۔
مطلب: جس کا دل غم کے سبب ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا اور ساری عمر عیش و عشرت میں مصروف رہا ۔

 
ہاتھ جس گل چیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے

معانی: گل چیں : پھول توڑنے والا ۔ خار: کانٹا ۔ آزار: تکلیف ۔
مطلب: باغوں کے پھول توڑتے وقت جس کے ہاتھ ان کے کانٹوں سے محفوظ رہے اور جس کا عشق فرقت اور جدائی سے ہم کنار نہیں ہوا ۔

 
کلفتِ غم گرچہ اس کے روز و شب سے دُور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے

معانی: کلفت: تکلیف ۔
مطلب: ہر چند کہ اس کے روز و شب غموں سے بے نیاز سہی اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اس کی نظروں سے زندگی کی تمام حقیقتیں پوشیدہ رہتی ہے ۔

 
اے کہ نظمِ دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کیوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے

معانی: نظم دہر: زمانے کا انتظام ۔ ادراک: سمجھ، شعور ۔ اندوہ: غم ، رنج ۔
مطلب: چنانچہ اے دوست بے شک تجھے نظام کائنات سے پوری طرح آگاہی حاصل ہے اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ تیرے لیے غم و اندوہ سے عہد برآ ہونا زیادہ مشکل ثابت نہ ہو گا ۔

 
ہے ابد کے نسخہَ دیرینہ کی تمہید عشق
عقلِ انسانی ہے فانی، زندہَ جاوید عشق

معانی: نسخہَ دیرینہ: بہت پرانی کتاب ۔ تمہید: کتاب کا آغاز ۔ زندہَ جاوید: ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال ایک دوسرے رخ سے اپنے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابدی سطح پر عشق انسانی بے شک ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ انسانی عقل و دانش تو فنا ہونے والی اشیاء میں سے ہے ۔

 
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے

معانی: شامِ اجل: موت کی شام، رات ۔ سوزِ زندگی: زندگی کی تپش، حرارت ۔
مطلب: یہی عشق ہے جو موت کی شکست کا باعث ہے صرف جذبہ عشق ہی وہ جذبہ ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے ۔

 
رخصتِ محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوشِ الفت بھی دلِ عاشق سے کر جاتا سفر

معانی: جوشِ الفت: محبت کی شدت ۔ بقا: باقی رہنا ۔
مطلب: لیکن یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیےکہ محبوب کی جدائی کا مقصد موت کے مترادف ہوتا اور محبت کا جوش و جذبہ بھی محبت کرنے والے کے دل میں باقی نہیں رہتا ۔

 
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں
روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں

مطلب: تو اس پس منظر میں اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جانا چاہئے کہ اگر محبوب کی موت واقع ہو جائے تو اس کے سبب عشق تو فنا نہیں ہو جاتا بلکہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس لمحے عشق روح میں غم کی شکل میں محفوظ ہو جاتا ہے ختم نہیں ہوتا ۔

 
ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی
زندگانی ہے عدم نا آشنا محبوب کی

معانی: بقا: باقی ۔ عدم نا آشنا: نیستی، فنا سے واقف ۔
مطلب: اس طرح ماننا پڑے گا کہ جب تک عشق باقی ہے محبوب بھی باقی ہے گویا فنا ہونے کے باوجود محبوب زندہ رہتا ہے ۔

 
آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی

معانی: جبین کوہ: پہاڑ کا ماتھا، مراد پہاڑ کے اوپر ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال جو منظر نامہ پیش کرتے ہیں اس کے مطابق ایک ندی ہے جو پہاڑ کی چوٹی سے نغمے گاتی ہوئی رواں دواں ہے ۔ یہی ندی بلند و بالا فضا میں محو پرواز پرندوں کو گانے کے لیے اکساتی ہے ۔

 
آئینہ روشن ہے اس کا صورتِ رخسارِ حور
گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہو جاتا ہے چور

معانی: صورتِ رخسار حور: حور کے چہرے کی طرح ۔
مطلب: اس ندی کا شفاف پانی ایک حور کے چہرے کی مانند مصفا ہے ۔ وادی کی چٹانوں پر جس لمحے یہ پانی آئینے کی صورت میں گرتا ہے تو چور چور ہو جاتا ہے ۔

 
نہر جو تھی اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے
یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے

معانی: افتاد: گرنے کی حالت ۔
مطلب: جس کے نتیجے میں پانی کے قطرے موتیوں کی مانند پیارے پیارے لگ رہے ہیں اورر کبھی وہ ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں ۔

 
جوئے سیمابِ رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی
مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی

معانی: جوئے سیماب رواں : بہتے ہوئے پارے کی ندی ۔ پریشاں ہونا: بکھر جانا، منتشر ہونا ۔ مثلِ تار سیم: چاندی کے تار کی طرح، مراد شفاف پانی والی ۔
مطلب: یہ ندی کی موجیں جو پارے کی مانند تھیں ریزہ ریزہ ہو کر منتشر ہو گئیں ۔ جن سے ایسی بوندیں نمایاں ہو رہی ہیں جیسے کہ وہ کسی اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوں ۔

 
ہجر، ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے
دو قدم پر پھر وہی جو مثلِ تارِ سیم ہے

معانی: مثلِ تارِ سیم: چاندی کے تار کی طرح ۔
مطلب: تاہم حقیقت یہ کہ ان قطروں کا انتشار عملی سطح پر باہمی ربط کا درس ہے اس لیے دو قدم آگے بڑھنے کے بعد یہ قطرے مربوط ہو کر ایک بار پھر موجوں میں ڈھل جاتے ہیں ۔

 
ایک اصلیت میں ہے نہرِ روانِ زندگی
گر کے رفعت سے ہجومِ نوعِ انساں بن گئی

معانی: اصلیت میں : حقیقت میں ، دراصل ۔ نہرِ روانِ زندگی: زندگی کی بہتی ہوئی نہر ۔ نوع انساں : مراد سب انسان ۔
مطلب: اور انسانی ہجوم کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی حقیقت ہی اصل میں یہی ہے ۔

 
پستیِ عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم
عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم

معانی: پستی عالم: دنیا کی نیچائی، دائم: ہمیشہ کے لیے ۔
مطلب: دراصل اس کائنات میں ہماری جدائی آئندہ باہمی ارتباط کی آئینہ دار ہے لیکن اس عارضی جدائی پر آنسو اس لیے بہاتے ہیں کہ ہم اسے مستقل سمجھ بیٹھے ہیں ۔

 
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مطلب: گویا انسان جب فنا ہو کر ہم سے بچھڑتا ہے تو عملی سطح پر یہ عارضی جدائی ہوتی ہے اسی جدائی کے غم میں آنسو بہائے جاتے ہیں ۔اس پوری نظم میں اقبال حیات بعد الممات کے فلسفے سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ اسی باعث وہ آخری بند کے اشعار میں واضح طور پر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنظر عمیق دیکھا جائے تو جو لوگ موت سے ہم کنار ہو جاتے ہیں درحقیقت وہ فنا نہیں ہوتے اور روحانی سطح پر ہم سے جدا نہیں ہوتے۔

 
عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو
یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو

معانی: محصور: گھِری، پھنسی ہوئی ۔
مطلب: ۔ جس گھڑی انسانی عقل و دانش دنیاوی آلام و مصائب میں گھر جائے یا پھر جوانی تاریک رات میں چھپ جائے ۔

 
دامنِ دل بن گیا ہو رزم گاہِ خیر و شر
راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر

معانی: دامن: جھولی، پلو ۔ رزم گاہ: جنگ کا میدان ۔
مطلب: قلب انسانی نیکی و بدی اور حق و باطل کی جنگ کا میدان بن کر رہ جائے اور راہ کی تاریکیوں کے سبب منزل کی جانب سفر کرنا بھی دشوار ہو جائے ۔

 
خضر ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آوازِ ضمیر

معانی: خضر: ایک ولی جو بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے ہیں ۔ گوشہ گیر: کونے، تنہائی میں رہنے والا ۔ ضمیر: باطن ، دل ۔
مطلب: انسان اپنی جرات و ہمت اور حوصلے کے حوالے آرزووَں اور تمناؤں سے کنارہ کش ہو جائے یہی نہیں بے بسی کا یہ عالم ہو کہ انسانی فکر اور ضمیر اپنی کارکردگی میں معطل ہو کر رہ جائیں ۔

 
وادیِ ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو

معانی: جادہ: راستہ ۔ شرر: چنگاری، مراد مختصر سی چمک ۔
مطلب: اس کے علاوہ زندگی میں کوئی ہم خیال اور ہم سفر بھی باقی نہ رہے حتیٰ کہ تاریک شب میں رہنمائی کے لیے جگنو کی ننھی روشنی تک موجود نہ ہو ۔

 
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

معانی:ظلمات: جمع ظلمت، اندھیرے ۔
مطلب: تو مرنے والوں کی پیشانیاں تاریکی میں اس طرح سے روشن ہو جاتی ہیں جس طرح کہ اندھیری رات میں تارے چمکتے ہیں اور ان کی روشنی مسافر کے لیے مشعل راہ کا کام دیتی ہے ۔