Please wait..

بلال

 
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حَبَش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

معانی: بلال: حضرت بلال کنیت ابو عبداللہ، حبشی غلام تھے ۔ ولادت مکہ میں ہوئی ۔ اسلام قبول کرنے پر ان کے آقا نے ان پر ظلم ڈھائے ۔ حضور اکرم سے بے حد عقیدت تھی ۔ مسجدِ نبوی میں اذان وہی دیا کرتے تھے ۔ آپ کا شمار رسول اللہ ﷺ کے ممتاز صحابیوں میں ہوتا ہے ۔ علامہ اقبال نے یہ نظم ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر کہی ہے ۔ چمک اٹھا: روشن ہوا ۔ حبش: افریقہ کا علاقہ ۔ حجاز: حجازِ مقدس ۔ اٹھا کر لانا: مراد پہنچانا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال صحابی رسولِ مقبول حضرت بلال حبشی سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ تیرے مقدر کا ستارہ ہی چمک اٹھا تھا کہ تو حضور کی دید اور خدمت کے لیے حبشہ سے حجاز میں آبسا ۔

 
ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

معانی: غمکدہ: دکھوں کا گھر، دل ۔ آبادی: مراد دکھ دور ہوئے ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ اے بلال حبشی تو جو اپنے وطن میں بے کیف زندگی گزار رہا تھا ۔ حضور کی غلامی میں پہنچ کر اس سعادت کا اہل ہوا کہ اس غلام پر ہزار آزادیاں قربان کی جا سکتی ہیں ۔

 
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے

معانی: آستاں : چوکھٹ، مراد حضور اکرم کا درِ مبارک ۔ دمَ گھڑی ۔ کسی کے: مراد حضور اکرم کے ۔
مطلب: پیغمبر اسلام پر اعدائے دیں کی یلغار اور تجھ پر ظلم و ستم کے باوجود تو نے حضور کے آستانے کو تا زندگی ایک لمحے کے لیے نہیں چھوڑا ۔

 
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں

مطلب: اس لیے کہ تو اس رمز سے آگاہی حاصل کر چکا تھا جو محبوب کے عشق میں غیروں کی جو جفائیں برداشت کرنی پڑتی ہیں وہ اہل دل کے لیے جفا نہیں ہوتیں اس لیے کہ ان کے بغیر محبت میں کچھ لطف حاصل نہیں ہوتا ۔

 
نظر تھی صورتِ سلماں   ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری

معانی: صورتِ سلماں : حضرت سلمان فارسی کی مانند جو حضوراکرم کے مشہور صحابی تھے جنھیں سلمان محمدی بھی کہا جاتا ہے انھیں رسول اللہ نے سلیمان الخیر کا لقب دیا تھا ۔ دید: نظارہ، محبوب کا دیدار ۔ پیاس بڑھنا: مراد حضور سے محبت میں زیادہ اضافہ ہونا ۔
مطلب: اے بلال ! امر واقع یہ ہے کہ صحابی رسول حضرت سلمان فارسی کی طرح تیری نظر بھی ادا شناس تھی اور حضور کی عظمتوں سے پوری طرح سے آگاہی رکھتی تھی ۔ یہی نہیں بلکہ پیغمبر اسلام کی قربت میں تیرا جذبہ وارفتگی مزید فروغ پاتا تھا ۔

 
تجھے نظارے کا مثلِ کلیم سودا تھا
اویس  طاقتِ دیدار کو ترستا تھا

معانی: مثلِ کلیم: حضرت موسیٰ کی طرح، جنھوں نے خدا سے اپنا جلوہ دکھانے کی درخواست کی تھی ۔ سودا: مرادشوق و جذبہ ۔ اویس : اویس قرنی، حضور اکرم کے نادیدہ عاشق، حضور نے انہیں خیر التابعین کا لقب عطا فرمایا تھا ۔
مطلب: جس طرح حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو دیدار خداوندی کا جنون تھا اور حضرت اویس قرنی جس طرح نبی اکرم کی زیارت کے لیے ترستے رہے اسی طرح تجھے بھی رسول اللہ ﷺ کے نظارے کا جنون تھا ۔

 
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا

معانی: نگاہوں کا نور: آنکھوں کی روشنی، مراد بیحد عزیز ۔ طور: طور سینا جہاں حضرت موسیٰ کو خدائی جلوہ نظر آیا ۔
مطلب: تو نے مدینے کو محض اس لیے نور حقیقت تصور کر لیا تھا مزید یہ کہ اس صحرا کو کوہ طور کی مانند سمجھ لیا تھا کہ حضور سرور کائنات اس شہر بے مثال میں اقامت پذیر تھے ۔

 
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرتِ دید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیاسائید

مطلب: تجھے بے شک حضور کا دیدار حاصل رہا اس کے باوجود تیرا ذوق دید تشنگی محسوس کرتا رہا ۔ بے شک وہ دل خوش قسمت ہے جو ہمیشہ عشق رسول مقبول میں تڑپتا رہا ۔

 
گری وہ برق تری جانِ ناشکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دستِ موسیٰ پر

معانی: برق: آسمانی بجلی ۔ جانِ ناشکیبا: عشق کے سبب بے صبر روح ۔ خندہ زن: ہنسی، مذاق اڑانے والی ۔ دستِ موسیٰ: حضرت موسیٰ کا ہاتھ، جب وہ جیب سے باہر نکالتے تو وہ بہت روشن ہوتا ۔

 
تپش ز شعلہ گرفتند و بر دلِ تو زدند
چہ برقِ جلوہ بخاشاکِ حاصلِ تو زدند

مطلب: (قضا و قدر نے) شعلے سے حرارت لی اور اسے تیرے دل پر مارا یعنی دل میں جذبہَ عشق پیدا کیا ۔ کیا تجلی کی کیسی بجلی تیری فصل کی خاشاک پر گرائی گئی ۔

 
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

معانی: ادائے دید: نظارہ کرنے کا انداز ۔ سراپا نیاز: پورے طور پر عاجزی، انکسار ۔ کسی کو: حضور اکرم کو ۔ نماز: مراد عبادت
مطلب: حضور اکرم کے روئے مبارک کی زیارت تیرے لیے سراسر عجز و انکساری کے جذبے پر مبنی تھی اور دیکھا جائے تو تیرے لیے یہ عمل سراسر نماز اور سجدہَ خداوندی سے کم نہ تھا ۔

 
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

معانی: ازل: مراد شروع سے ۔ اس کے: مرا د حضور اکرم کے ۔
مطلب: تیری اذان محض اذان نہ تھی بلکہ اسے عشق محبوب کے لیے ترانے سے تشبیہ دی جائے تو زیادہ مناسب ہو گا ۔ اے بلال نماز تو حضور کی زیارت کا بہانہ تھی ۔

 
خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا

معانی: خوشا: بہت اچھا ۔ یثرب: مدینہ منورہ کا پرانا نام ۔ مقام: ٹھکانے، رہنے کی جگہ ۔ اس کا: حضور اکرم کا ۔ دیدار عام: مراد ہر کوئی حضور کو دیکھ لیتا تھا ۔
مطلب: وہ لمحات کتنے باعث رحمت تھے جب حضور یثرب میں مقیم تھے اور عام لوگ ان کی زیارت سے استفادہ کرتے تھے ۔