Please wait..

جلال و جمال

 
مرے لیے ہے فقط زورِ حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزیِ ادراک

معانی: جلال و جمال: شکوہ اور خوبصورتی ۔ زورِ حیدری: حضرت علی کی طاقت، فقر کی طاقت، روح کی طاقت ۔ فلاطوں کی تیزی ادراک: قدیم یونانی فلسفی افلاطون کی فکر یا عقل کی تیزی ۔
مطلب: اس نظم میں میری اور تیری کی دو علامتوں میں دو الگ الگ اور متضاد موضوعات کو سمجھایا گیا ہے ۔ میری علامت سے وہ شخص مراد ہے جو خود آشنا اور خودی آشنا ہے اور تیری علامت سے وہ شخص مراد ہے جو خود نا آشنا اور خودی نا آشنا ہے ۔ اس پس منظر میں علامہ کہتے ہیں کہ مجھے تو حضرت علی کے بازووَں کی طاقت ہی کافی ہے اور تو افلاطون کی فکر کی تیزی کا غلام ہے حالانکہ جہاں روحانی طاقت پہنچاتی ہے وہاں فکر طاقت نہیں پہنچاتی ۔

 
مری نظر میں یہی ہے جمالِ زیبائی
کہ سربسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک

معانی: جمال زیبائی: زینت کی خوبصورتی ۔ سربسجدہ: سجدے میں گرنا ۔ افلاک: فلک کی جمع، آسمان ۔ قوت: طاقت ۔
مطلب: علامہ نے اس نظم میں جلال کو جمال پر ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ جلال کے بغیر جمال کوئی شے نہیں ۔ اس شعر میں انھوں نے کہا ہے کہ میں اس خوبصورتی کو حسن کی زینت سمجھتا ہوں جس میں قوت بھی ہو کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ قوت کے سامنے آسمان بھی سر جھکا دیتے ہیں ۔ صرف دلبری چاہے وہ حسن کی کتنی انتہا پر کیوں نہ ہو آسمانوں کو سجدہ ریز ہونے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔

 
نہ ہو جلال تو حُسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک

معانی: نرا نفس: صرف سانس ۔ نغمہ : راگ ۔ آتشناک: آگ کی سی حرارت رکھنے والا ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے اس سے پہلے کے شعر کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جلال نہ ہو تو حسن اور جمال بے اثر ہے ۔ اس کے ثبوت میں علامہ مثل یہ لائے ہیں کہ اگر موسیقار کے نغمے میں آگ کی سی حرارت موجود نہ ہوتو اس کا نغمہ یا راگ صرف ایک بے اثر سانس کی حیثیت رکھے گا ۔ اثر اس وقت ہو گا جب اس کے نغمے کے حسن میں جلال کی کیفیت بھی ہو گی ۔

 
مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تُند و سرکش و بے باک

معانی: تند: تیز ۔ سرکش: سر اٹھانے والے ۔ بے باک: بے خوف ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے جمال پر جلال کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے ایک انوکھی ہی مثال دی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر مجھے کسی گناہ کی پاداش میں آگ میں بھی ڈال دیا جائے تو میں ایسی آگ کو کبھی قبول نہیں کروں گا جس کے شعلے تند و تیز اور بھڑکیلے نہ ہوں ۔ یعنی آگ بھی وہ پسند کروں گا جس میں جلال کی کیفیت ہو ۔ اس نظم کے اشعار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جہاں جلال ہو گا اس میں جمال بھی موجود ہوتا ہے لیکن جہاں جمال وہاں جلال کا ہونا ضروری نہیں ۔ اس لیے اصل چیز جلال ہے جمال نہیں ۔ جمال بے جلال بے کار ہے ۔