Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۷)

 
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان

معانی: رومی: ملک روم کے باشندے ۔ شامی: ملک شام کے باشندے ۔ فرزند کہستان: پہاڑ کے بیٹے پہاڑوں میں رہنے والے ۔ خودی: خودآگاہی ۔
مطلب: اس پوری نظم میں اقبال نے محراب گل افغان کی زبان سے افغان قوم کو جو پہاڑوں اور اس کی وادیوں میں برصغیر کے شمالی حصے اور افغانستان میں رہتی ہے یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان، روم اور شام کے ملکوں کے لوگ بدل رہے ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن نظرآتے ہیں تو بھی اے اٖفغان اپنی شناخت کر ، خود کو پہچان کہ تیرے اندر قدرت نے کیا طاقتیں اور صلاحتیں رکھی ہوئی ہیں اور ان سے کام لے کر تو بھی غلامی و محکومی اور غریبی و ناداری کی زندگی سے نکل اور دنیا کی قوموں کی ترقی یافتہ صفوں میں شامل ہو جا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اپنی قومی اور مذہبی شناخت کو نہ بھولے اور اہل مغرب کی پیروی کر کے ان جیسا نہ ہو جائے ۔

 
موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا، وہ کیسا دہقان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان

معانی: وافر: ضرورت سے زیادہ ۔ زرخیز: اچھی فصلیں دینے والی ۔ کھیت سینچا: کھیت کو سنوارا ۔ دہقان: کسان ۔
مطلب: اے افغان! اللہ تعالیٰ نے تیرے علاقے کا موسم اور تیرے خطے کی زمین ایسی بنائی ہے کہ یہ سب کچھ اچھی فصلیں پیدا کرنے کے لیے بہت مفید ہے ۔ یہاں پانی ضرورت سے زیادہ ہے ۔ مٹی فصلیں اگانے کی بڑی اہلیت رکھتی ہے ۔ موسم ان فصلوں کو اگانے اور بڑھانے کے لیے بڑے سازگار ہیں ۔ ضرورت صرف محنت کی ہے ۔ اے خود کو بھول جانے والے اور اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو بھلا دینے والے افغان خود کو پہچان اور ایک اچھے کسان کی طرح محنت کر کے اپنی زمین سے اچھی فصلیں لے ۔ جو کسان موافق حالات کے باوجود اپنی زمین کو فصلیں اگانے کے قابل نہ بنائے وہ بھی کیا کسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے ۔ اٹھ ، اپنی غفلت چھوڑ اور زمین تیار کر محنت سے کام لے ۔ قدرت تیری جھولیاں بھر دے گی ۔

 
اونچی جس کی لہر نہیں ہے، وہ کیسا دریا
جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں وہ کیسا طوفان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان

معانی: تند: تیز ۔ طوفان: سیلاب، تلاطم ۔ لہر: موج ۔
مطلب: یہاں دریا اور طوفان کی مثالیں دے کر افغانوں کو احساس محرومی دلانے اور پھر ان کے اندر اس محرومی سے نکلنے کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ محراب گل اپنی قوم کو کہتا ہے کہ جس دریا کی موجیں اونچی نہیں وہ دریا کہلانے کے قابل نہیں جس طوفان کی ہوائیں تیز نہیں وہ طوفان کہلانے کا مستحق نہیں تو اپنے دریا کی لہروں میں بلند موجیں پیدا کر اور اپنے طوفان حیات کی ہواؤں میں تیزی پیدا کر تا کہ تیرا جوہر بھی کھلے اور تو بھی کسی گنتی اور شمار میں آ سکے ۔ تیرے اندر سب صلاحتیں موجود ہیں ۔ کمی ہے تو یہ کہ تو اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں سے آشنا نہیں ۔ ان کو پہچان اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو جا ۔

 
ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان

معانی: خاک: مٹی، زمین ۔ اپنا آپ پانا: اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کا پتہ چلانا ۔ دہقانی: کسانی ۔ سلطانی: شاہی ۔
مطلب: جس کسان نے اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں سے کام لے کر اپنی زمین کو قابل کاشت بنایا اور اس میں سے فصلیں لے کر اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کی پہچان کی اس کی کسانی پر شاہی قربان کی جا سکتی ہے ۔ بادشاہ تو خراج کا محتاج ہے ۔ محصولات کا لینے والا ہے ۔ توتو اس زمین کا مالک ہے جو فصلیں دیتی ہے اور غریب و امیر کو پالتی ہے اور بادشاہ تیرے محصولات اور تیرے خراج کے محتاج ہیں ۔ ضرورت اے افغان کسان صرف خود کی پہچان کرنے غفلت سے جاگنے اور اکم کرنے کی ہے ۔

 
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان

معانی: لاج رکھنا: عزت رہ جانا ۔ عالم فاضل: بہت پڑھے لوگ ۔
مطلب: سرحد کے غیور افغان جدید علم سے بے بہرہ ہیں اور عام پڑھائی بھی نہ پڑھے ہوئے کافی تعدادا میں موجود ہیں ۔ البتہ قرآن کریم ناظرہ پڑھے ہوئے ہیں اس لیے انہیں پڑھا ہوا ہی کہنا چاہیے ۔ آج کے دور کے اہل علم اور عقل و دانش میں فضیلت رکھنے والے اپنے ایمان کو دنیا کے عوض بیچ رہے ہیں اور یاد رکھو اصل دولت ایمان ہے عمل بعد میں آتا ہے ۔ ایمان صحیح ہو گا تو عمل بھی کارآمد ہو گا ۔ محراب گل اپنی قوم سے کہہ رہا ہے کہ دور حاضر کے علمائے دین اور علمائے علوم جدید سے تو تم ان پڑھ بہتر ہو ۔ تمہارا ایمان تو پختگی کی حد تک سلامت ہے ۔ تمہاری بے علمی نے بے علموں کی عزت رکھ لی ہے ۔ اس لیے کہ لوگ سوچتے ہیں کہ جدید علوم پڑھنے سے یا ایسے علوم پڑھنے سے جن سے ایمان بک جائے کچھ نہ پڑھنا اچھا ہے ۔ اے افغان اپنی خودی کو پہچان اور اس کی حفاظت کر ۔ اصل چیز حفاظت خودی ہے جس علم سے خودی ختم ہو جائے اس سے نہ پڑھنا بہتر ہے ۔