ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
(۳)
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
معانی: محکوم: غلام ۔ مجبور : جبر کے تحت ۔ فقیر: غریب ۔ کل: گزرا ہوا زمانہ ۔ اہلِ نظر: نظر والے، بصیرت والے ۔ ایران صغیر: چھوٹا ایران ۔
مطلب: آج وہ کشمیر جسے اپنی شادابی اور خوش حالی کی وجہ سے گزشتہ زمانے میں دانائی اور بصیرت رکھنے والے اور بات کی تہہ تک پہنچنے والی نظر رکھنے والے چھوٹا ایران کہتے تھے آج وہ ہندووَں کے ظلم و ستم اور لوٹ گھسوٹ کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ یہاں کے مسلمان خوشحالی کی بجائے بدحالی سے دوچار ہیں ۔ آزادی کی بجائے غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ ملوکیت کے جبر کے تحت رہ رہے ہیں ۔ غربت ، تنگ دستی اور محتاجی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کے بعد کشمیر کے آزاد علاقے کو چند لاکھ کے عوض ایک ہندو ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا تھا اور یہاں کے لوگوں کو اس کی غلامی میں دے دیا تھا ۔
سینہَ افلاک سے اٹھتی ہے آہِ سوز ناک مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان و امیر
معانی: سینہ افلاک: آسمانوں کا سینہ ۔ آہ سوز ناک: جلا دینے والی آہ ۔ مرعوب ہوتا ہے: رعب اور دبدبہ سے خوف کھاتا ہے ۔ سلطان: بادشاہ ۔
مطلب: جب کوئی مر دحق (وہ شخص جو اللہ کے سوا کسی کو اپنا مالک نہ سمجھے) اللہ کو چھوڑ کر بادشاہوں اور امیروں کو اپنا مالک سمجھنے لگتا ہے اور ان کے دبدبہ اور خوف کی وجہ سے ان کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے لگتا ہے تو آسمانوں کے سینہ سے بھی جلا دینے والی آہ نکلتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا ۔
کہہ رہا ہے داستاں بیدردیِ ایام کی کوہ کے دامن میں وہ غم خانہَ دہقانِ پیر
معانی: داستاں : کہانی ۔ بیدردی: ظلم ۔ ایام: جمع یوم بمعنی دن مراد ہے زمانہ ۔ کوہ: پہاڑ ۔ دامن: جھولی ۔ غم خانہ:نعمت کا گھر ۔ دہقان پیر: بوڑھا کسان ۔
مطلب: ملا ضیغم کہتا ہے کہ اس کشمیر کے ساتھ جو کل تک آزاد اور خوش حال تھا زمانے نے کیا ظلم کیا ہے اس کا ہلکا سا اندازہ کرنا ہو تو پہاڑ کے دامن میں بوڑھے کسان کے اس گھر کو دیکھ لو جہاں غربت، بھوک، تنگ دستی، بیماری وغیرہ کے سوا کچھ نہیں ۔ اسے گھر نہیں غم کا گھر کہنا چاہیے ۔ یہ صورت حال اس ہندو راجہ کی پیدا کی ہوئی ہے جس نے کوڑیوں کے مول کشمیر اور کشمیری قوم کو خرید کر اسے غلام بنا لیا تھا ۔
آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر
معانی: آہ: افسوس کا کلمہ ہے ۔ قوم نجیب: شریف قوم ۔ چرب دست: ہاتھوں سے نفیس کام کرنے والی، ہنر مند ، دستکار ۔ تر دماغ: طباع، ذہین ۔ روز مکافات: بدلے کا دن ۔ خدائے دیر گیر: دیر سے گرفت کرنے والا خدا ۔
مطلب: اس شریف النسل، ہنر مند اور ذہین قوم کی بدحالی کو دیکھ کر میرے سینے سے آہ نکلتی ہے ۔ مجھے انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے ۔ اے گناہ اور جرم کرنے والوں کو ڈھیل دینے اور ان کی دیر سے گرفت کرنے والے خدا تو ان لوگوں کو کب پکڑے گا اور کب سزا دے گا جنھوں نے کشمیر اور کشمیریوں کو اس حال تک پہنچایا ہوا ہے ۔ اے خدا بدلے کا وہ دن کب آئے گا ۔
(۴)
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو تھرتھراتا ہے جہانِ چار سو و رنگ و بو
معانی: لہو گرم ہونا: خون میں حرارت پیدا ہونا ۔ محکوم: غلام ۔ جہان چار سو: چار طرفوں والا جہان ۔ جہان رنگ و بو: رنگ اور خوش بو والا جہان جو خوش نما بھی ہے اور فانی بھی ۔
مطلب: جب غلام قوم غلامی کی بدحال زندگی گزارتے گزارتے تنگ آ جاتی ہے تو اس میں آزاد ہونے کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے اور اسکے لہو میں آزادی کی حرارت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ جان پر کھیل کر بھی اپنے آقاؤں کے مقابلے پر آ جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مشرق، مغرب، شمال اور جنوب وغیررہ کی چار طرفیں رکھنے والا اور رنگ وخوشبو کی طرح کا خوشنما مگر جلد اڑ جانے والا جہان یعنی فانی اور عارضی جہان کانپنے لگتا ہے مراد ہے کہ ان کی ہمت اور عزم کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہرتی ۔
پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغِ آرزو
معانی: ظن و تخمین: شک اور اندازہ ۔ ضمیر: ذہنیت، افتاد، دل ، ایک باطنی طاقت جو ہمیشہ آدمی کو برائی سے روکتی ہے اور اچھائی کی طرف مائل رکھتی ہے ۔ چراغ آرزو: خواہش کا دیا ۔
مطلب: جب غلام قوم میں آزادی کی لہر دوڑ جاتی ہے تو اس کے افراد کے دل اور ذہنیتیں شک اور اندازہ کی کش مکش سے نکل کر زندگی کے حقائق پر یقین کرنے لگتی ہیں اور آزاد ہونے کا جو دیا ان کے سینوں میں آرزو کی شکل میں جل اٹھتا ہے اس کی روشنی میں وہ زندگی کے ہرشعبہ کے راستہ کو روشن رکھتے ہیں اور اس پر چل کر اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں ۔
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی نہیں سکتی عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفو
معانی: چاک :گریبان یا کسی اور جگہ کے کپڑے کا پھٹا ہوا حصہ ۔ سوزن: سوئی ۔ تار رفو: سینے کا دھاگہ ۔
مطلب: وہ پھٹا ہوا گریبان جس کو عقل سی نہیں سکتی اسے عشق بغیر سوئی کے اور بغیر سینے کے دھاگے کے سی دیتا ہے ۔ مراد ہے غلامی کے زمانے میں غلام کی زندگی جس طرح بدحالی کا شکار ہوتی ہے اور عقل اسے سو حیلے بہانے سے اس غلامی کی زندگی پر قناعت کر نے کے لیے جس طرح کہتی رہتی ہے یہ صورت حال اس وقت باتی نہیں رہتی جب غلام قوم کے افراد میں آزادی کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اس میں عشق کی حد تک کی گرمی اور حرارت پیدا کر لیتے ہیں ۔ انہیں اس وقت ایک ہی لگن ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے آزادی حاصل کرنے کی لگن چاہے اس کے لیے انہیں کوئی قربانی کیوں نہ دینی پڑے ۔
ضربتِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش حاکمیت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رُو
معانی: ضربتِ پیہم: مسلسل ضرب، لگانا، چوٹ ۔ پاش پاش: ٹکڑے ٹکڑے، ریزہ ریزہ ۔ حاکمیت: حاکم ہونا، آقا ہونا ۔ سنگیں دل: پتھر دل، سخت دل ۔ آئینہ رو: آئینہ کے چہرے والا، خوبصورت، حسین ۔
مطلب: حاکمیت اور آقائیت کا وہ بت جس کا چہرہ تو حسین لیکن دل پتھر کا ہوتا ہے آخر غلام قوم کے افراد کی مسلسل ضرب اور چوٹ سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ۔ غلامی کی زندگی میں غلاموں کو اپنے آقاؤں کا طرز عمل برا نہیں لگتا حالانکہ وہ سخت دل ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں لیکن جونہی ان میں آزادی کی آرزو مچلنے لگتی ہے اور اس کے حصول کے لیے ان کے خون میں حرارت پیدا ہوتی ہے تو ان کے سامنے اپنے آقاؤں کے اصل چہرے آ جاتے ہیں جن کو وہ اپنی لگاتار کوشش کے بعد اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں اور آزادی کی نعمت سے مالامال ہو جاتے ہیں ۔