فاطمہ بنتِ عبداللہ
(عرب لڑکی جو طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی)
اے فاطمہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
معانی: امت مرحوم: وہ امت جس پر اللہ کی رحمت ہوئی ہو، ملت اسلامیہ ۔ مشتِ خاک: مراد جسم ۔ معصوم: گناہوں سے پاک ۔
مطلب: اقبال فرماتے ہیں اے فاطمہ بنت عبداللہ تو اس امت کی عزت و آبرو ہے جس پر باری تعالیٰ نے اپنی رحمت کا نزول فرمایا ۔ سچ تو یہ ہے کہ تیرے جسم کا ذرہ ذرہ تمام گناہوں سے پاک و منزہ ہے ۔
یہ سعادت حورِ صحرائی تری قسمت میں تھی غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
معانی: حورِ صحرائی: عرب لڑکی ہونے کے سبب ریگستانی حور کہا ہے ۔ غازیان: جمع غازی، باطل کے خلاف جہاد کرنے والے ۔ سقائی: پانی پلانے کا عمل ۔
مطلب: اے حور صحرائی دراصل یہ سعادت تیرے حصے میں آئی تھی کی دین کی راہ میں جان نثار کرنے والوں اور فاتح جوانوں کو میدان کارزار میں پانی پلانے کا شرف حاصل کرے ۔
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
معانی: بے تیغ و سپر: تلوار اور ڈھال یعنی جنگی ہتھیاروں کے بغیر ۔ جسارت آفریں : دلیری پیدا کرنے والا ۔ شہادت: اللہ کی راہ میں جان دینا ۔ کس قدر: بہت زیادہ ۔
مطلب: سچ تو یہ ہے کہ تو نے اللہ کی راہ میں کسی تلوار اور ڈھال کے بغیر حیرت انگیز طور پر بڑی جی داری کے ساتھ جہاد کیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شوق شہادت نے تجھے کس قدر جرات مند اور بہادر بنا دیا تھا ۔
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
معانی: گلستانِ خزاں منظر: اجڑی ہوئی یا زوال کی ماری قوم ۔ خاکستر: راکھ، یعنی ماضی کے مجاہدوں کی موجودہ نسل جو ایسے جذبے سے خالی ہے ۔
مطلب: تیری مختصر زندگی اور موت کے پیش نظر حیرت زدہ ہو کر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ خدایا! ہمارے اجڑے ہوئے باغ میں ایسی کلی بھی موجود تھی ۔ یہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ جو دیکھا جائے تو راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے اس ڈھیر میں ایسی تابناک اور باطل کو جلا دینے والی چنگاری بھی موجود تھی ۔
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
معانی: صحرا : مراد قوم، ملت ۔ بجلیاں جمع بجلی مراد جہاد کے جذبے ۔ برسے ہوئے بادل: ماضی کے عظیم مجاہدوں کی موجود ہ نسل، قوم ۔ خوابیدہ: سوئی ہوئیں یعنی موجود ۔
مطلب: لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس لیے کہ ہمارے صحرا میں اتنے جیالے آہو ابھی تک چھپے ہوئے ہیں اور جو بادل برس چکا ہے اس میں ابھی بجلیاں چھپی ہوئی ہیں ۔ مراد یہ کہ قوم میں ابھی بھی جوہر قابل اور جان نثاروں کی کمی نہیں ہے ۔
فاطمہ گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے نغمہَ عشرت بھی اپنے نالہَِ ماتم میں ہے
معانی: شبنم افشاں : آنسو بہانے والی ۔ نغمہَ عشرت: خوشی و مسرت کا گیت ۔ نالہَ ماتم: مرنے والے کے غم میں رونا ۔
مطلب: اے فاطمہ! ہر چند کہ تیرے غم میں ہماری آنکھیں اشکبار ہیں لیکن آہ و زاری کے ان مراحل میں کچھ طمانت بخش پہلو بھی موجود ہیں ۔
رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے
معانی: رقص: ناچ، تحریک ۔ نشاط انگیز: مراد خوشیوں مسرتوں سے بھرا ہوا ۔ زندگی کاسوز: زندگی کی حرارت ۔ لبریز: بھرا ہوا ۔
مطلب: تیری حیات اور موت کے واقعات ہمارے لیے بے حد حوصلہ افزا ہیں ۔ تیری خاک کا ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے بھرپور ہے ۔
ہے کوئی ہنگامہ تیری تربتِ خاموش میں پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں
معانی: تربت: قبر، مزار ۔ قومِ تازہ: نئی قوم، نئی نسل ۔
مطلب: تیری قبر کا سکوت بھی ایک ہنگامے کا پتہ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس قبر کی آغوش میں ایک نئی اور زندہ قوم پرورش پا رہی ہے ۔
بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے میں آفرینش دیکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے میں
معانی: وسعتِ مقصد: ارادے یا غرض کا پھیلاوَ ۔ آفرینش: پیدائش، ولادت، وجود میں آنا ۔ مرقد: آرام گاہ، قبر ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ میں اس نئی قو م کی وسعت اور اس کے بنیادی مقاصد سے آگاہی نہیں رکھتا ۔ تاہم اس قدر یقین ہے کہ اس نئی قوم کی پیدائش کا آغاز تیری قبر سے ہو رہا ہے ۔
تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور دیدہَ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور
معانی: تازہ انجم: نئے نئے ستارے، یعنی روشن دل مسلمان ۔ فضائے آسمان: مراد دنیا ۔ دیدہ: آنکھ ۔ نامحرم: ناواقف، بے خبر ۔ موجِ نور: روشنی کی لہر ۔
مطلب: اے فاطمہ بنت عبداللہ میری چشم بصیرت افروز اس حقیقت کا نظارہ کر رہی ہے کہ آسمان پر ایک نئے اور تابندہ ستارے کا ظہور ہو رہا ہے ۔ ہر چند کہ عام انسانوں کی نظروں کو اس کا ادراک نہیں ہے یہ محض ایک ستارہ نہیں بلکہ بہت سے ستارے ہیں ۔ یہ ستارے ابھی وقت اور ماحول کی اندھیرے سے نمودار ہو رہے ہیں ۔
جو ابھی ابھرے ہیں ظلمتِ خانہَ ایام سے جن کی ضو نا آشنا ہے قیدِ صبح و شام سے
معانی: ظلمت خانہَ ایام: زمانے کا تاریک گھر، اس دور کی تاریکیاں ۔ ضو: روشنی ۔
مطلب: یہ ستارے ابھی وقت اور ماحول کے اندھیرے سے نمودار ہو رہے ہیں اور ان کی روشنی ابھی تک دن رات اور صبح و شام کی پابندیوں سے آزاد ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ملت مسلمہ کے لیے عروج و ارتقا کے نئے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں تا کہ وہ حال کے ساتھ اپنے مستقبل کی تعمیر کر سکے ۔
جن کی تابانی میں اندازِ کہن بھی ، نو بھی ہے اور تیرے کوکبِ تقدیر کا پرتو بھی ہے
معانی: تابانی: چمک ۔ اندازِ کہن: پرانے طور طریقے ۔ نو: نئے ۔ کوکب تقدیر: مقدر کا ستارہ ۔ پرتو: روشنی، عکس ۔
مطلب:اے فاطمہ! یہ جو ستارے نمودار ہو رہے ہیں انکی روشنی اور چمک دمک میں قدیم اور نئے انداز کے ساتھ تیرے مقدر کے ستارے کا عکس بھی موجود ہے ۔