Please wait..

(4)

 
عالمِ آب و خاک و باد، سرِ عیاں ہے تُو کہ میں
وہ جو نظر سے ہے نہاں اس کا جہاں ہے تُو کہ میں

معانی: آب و خاک: پانی اور مٹی، مراد دنیا ۔ سرِ عیاں : بھید جو ظاہر ہو ۔
مطلب: یہ نظم فی الواقع کائنات اور انسان کی صفات کے مابین ایک تقابلی جائزے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے ابتدائی شعر میں اقبال نے کائنات کو محض پانی، مٹی اور ہوا کا مرکب قرار دیتے ہوئے انسانی صفات کو خالق حقیقی کے ایک ایسے بھید سے تعبیر کیا ہے جو سب پر عیاں ہے ۔ اسی حوالے سے انھوں نے فرمایا ہے کہ اے دنیا یہ تو بتا جو خالق حقیقی ہے وہ میرے دل میں موجود رہتا ہے یا تجھ میں مراد یہ کہ تجھے تو اس کا ادراک بھی نہیں جب کہ انسان کے لیے تو وہ سب کچھ ہے ۔

 
وہ شبِ درد و سوز و غم کہتے ہیں زندگی جسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں  اس کی اذاں ہے تُو کہ میں

معانی: درد و سوز: غم اور تپش ، تکلیفیں ۔ سحر: صبح ۔ اذان: آواز ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے ظہور آدم اور اس کے وجود میں آنے کے بعد جو صورت حال پیش آئی اس کے بارے میں بڑے علامتی انداز میں بات کی ہے کہ ظہور آدم سے قبل تو تاریکی ہی تاریکی تھی جب کہ وہ کائنات میں وارد ہوا تو ہر سمت اس کے شعور کی روشنی پھیل گئی سو فی الواقع یہ انسان ہی ہے جو صبح کی اذان کی طرح منظر پر نمودار ہوا اور جس نے کائنات کی تخلیق کا مقصد واضح کر کے ایک ایسے شعور کو جنم دیا جس کے سبب اپنی ذات کے ساتھ کائنات کی شناخت بھی ممکن ہوئی جب کہ انسان کے بغیر تو یہ کائنات ایک تاریک شب کے مانند تھی ۔

 
کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم سیر
شانہَ روزگار پر بارِ گراں ہے تُو کہ میں

معانی: نمود: ظاہر ہو گیا ۔ شام و سحر: صبح اور شام ۔ گرم سیر: مصروف ۔ شانہَ روزگار: دنیا ۔ بارِ گراں : بوجھ ۔
مطلب: ہر چند کہ انسان نے ارتقاء کا جو عمل شروع کیا ہے وہ ابھی تک تکمیل پذیر نہیں ہو سکا اس لیے کہ کائنات کے جملہ مادی عناصر دیکھا جائے تو اس کی راہ میں حائل ہیں ۔ کائنات میں شب و روز کی جو گردش جاری ہے وہ اسی لیے کہ خود انسان بھی ابھی اپنی تکمیل کے مرحلے میں ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سطور بالا کے مطابق انسانی ارتقاء کے عمل میں یہی مادی عناصر رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔

 
تو کفِ خاک و بے بصر، میں کفِ خاک و خودنِگر
کشتِ وجود کے لیے آبِ رواں ہے تُو کہ میں

معانی: بے بصر: اندھا ۔ خودنگر: اپنے آپ کو پہچاننے والا ۔ کشتِ وجود: وجود کی کھیتی ۔ آبِ رواں : چلتا پانی ۔
مطلب: اس شعر میں بھی اقبال پانی ، مٹی اور ہوا جیسے عناصر سے ترتیب پانے والی دنیا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تو تو یقینا ایک مشت خاک کے سوا اور کچھ نہیں کہ جس میں نہ شعور موجود ہے نہ ادراک ! جب کہ میں وہ شخصیت ہوں جس میں بصیرت بھی موجود ہے اور بصارت بھی ۔ جو اپنی حقیقتوں سے بھی پوری طرح آشنا ہے اور تیری اصلیت سے بھی آگاہی رکھتا ہے ۔ اس صورت میں اگر میں یہ استفسار کروں تو غیر مناسب نہ ہو گا کہ حیات میں جو تازگی اور تراوٹ کے علاوہ ارتقاء کا عمل جاری و ساری ہے اس کی وجہ کون ہے تو یا میں اس سوال کا جواب یقینا میرے حق میں ہو گا ۔