Please wait..

موت

 
لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے
اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے

معانی: لحد: قبر ۔ غیب: غائب ہونا ۔ حضور: حاضر ہونا ۔ ناصبور: بے صبر ۔
مطلب: موت دو قسم کی ہے ایک عامی کی اور ایک اخص آدمی کی ۔ اخص ہستیوں میں انبیاء ، صدیقین، شہدا، صلحا، اولیا اور خودی والے لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ ظاہری موت کی منزل سے ضرور گزرتے ہیں ۔ لیکن مرنے کے بعد بھی ان کی ایک خاص قسم کی زندگی قائم رہتی ہے ۔ یہ بات عامی کو نصیب نہیں ۔ اخص ہستیاں قبر میں بھی زندہ ہوتی ہیں اور انہیں خدا کا کبھی دیدار ہوتا ہے اور کبھی اس سے محروم ہوتے ہیں جس طرح ایسے لوگ دنیا میں بیقرار رہتے ہیں اسی طرح وہ موت کے بعد بھی بے قرار رہتے ہیں ۔

 
مہ و ستارہ مثالِ شرارہ یک دو نفس
مئے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے

معانی: مئے خودی: خودی کی شراب ۔ سرور: نشہ ۔
مطلب: عامی لوگ تو چاند اور سورج اور ستاروں کی طرح ہوتے ہیں کہ ابھی ہیں اور ابھی غروب ہو جاتے ہیں ۔ ہمیشہ چمکتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ۔ عامی لوگ ابھی زندہ ہوتے ہیں اور ابھی مر کر قبر میں مٹی ہو جاتے ہیں جب کہ وہ لوگ جنھوں نے خودمعرفتی اور خودشناسی کی شراب پی رکھی ہوتی ہے وہ زمانے کی ایسی انتہا تک زندہ ہوتے ہیں جس کی انتہا کی کسی کو کچھ خبر نہیں ۔ وہ قبروں میں بھی زندہ ہوتے ہیں اور اللہ کے دیے ہوئے زور پر اگر چاہیں تو اس دنیائے ظاہری میں بھی متصرف ہو کر آ سکتے ہیں ۔

 
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے

معانی: وجود کا مرکز: وجود کی اصل جگہ دل یعنی خودی ۔
مطلب: اے وہ خاص جو ہستی و نشہ خودی میں مست ہے ۔ تیری موت کی صورت عامی لوگوں سے بالکل مختلف ہے ۔ موت کا فرشتہ اگرچہ تجھے چھوتا ضرور ہے اور تجھ پر موت کی حالت ضرور طاری کرتا ہے لیکن تیرے جسم کا جو مرکز ہے اس کو نہیں چھیڑتا ۔ تیرا ظاہری جسم تو موت کے انداز میں قبر میں چلا جاتا ہے لیکن تیرا روحانی جسم ہمیشہ کے لیے زندہ رہتا ہے ۔