Please wait..

رقص

 
چھوڑ یورپ کے لیے رقصِ بدن کے خم و پیچ
روح کے رقص میں ہے ضربِ کلیم اللہی

معانی: رقص: ناچ ۔ خم و پیچ: بل ۔ ضرب کلیم اللہی: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ضرب ۔
مطلب: علامہ نے اس نظم میں بتایا ہے کہ رقص (ناچ) دو قسم کا ہے ایک رقص تو وہ ہے جس میں رقص کرنے والے کا جسم تو ناچتا ہے لیکن اس کی روح ساکت رہتی ہے ۔ دوسرا رقص وہ ہے جس میں روح ناچتی ہے اور روح کے ناچنے کی وجہ سے اس کا بدن بھی ازخود روح کی حرکات کے تابع ناچتا ہے ۔ اس کو صوفیانہ اصلاح میں وجد اور توجد کی کیفیت بھی بتایا جاتا ہے ۔ علامہ کہتے ہیں کہ ایسا رقص جس کا تعلق صرف جسم کو بل دینے سے ہے اور جس میں ر وح دب جاتی ہے ایسے رقص کو تو صرف یورپ والوں کے لیے چھوڑ دے کیونکہ وہاں ہی اسی قسم کا رقص مقبول ہے ۔

 
صلہ اُس رقص کا ہے تشنگیِ کام و دہن
صلہِ ِاس رقص کا درویشی و شاہنشاہی

معانی: صلہ: بدلہ، معاوضہ ۔ تشنگی کام و دہن: منہ اور حلق کی پیاس ۔ درویشی و شاہنشاہی: درویش اور بادشاہی یعنی عظمت اور بلندی ۔
مطلب: تو اے مرد مسلمان اس رقص کی ریس اور پیروی نہ کر تو اس کے برعکس روح کا رقص اختیار کر کیونکہ اس رقص میں حضرت موسیٰ کے عصا کی چوٹ کا عصر ہے ۔ یہ وہ عصا تھا جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین پر مارا تو چشمے پھوٹ پڑے ۔ دریا کے پانی پر مارا تو دریا کا پانی دو ٹکڑے ہو گیا اور اس نے راہ دے دی ۔ جب کہ بدن کے رقص میں کوئی بھی رحمانی صفت نہیں ہے ۔ یہ صرف شیطانی صفات کا حامل ہے ۔ اس کا نتیجہ رقص کرنے والے کے حلق اور منہ کی پیاس ہے یعنی اس میں شراب پینے یا جنسیات سے تسکین حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ رقص جس میں حضرت موسیٰ کے عصا جیسی ضرب ہو اس کا نتیجہ درویشی اور شہنشاہی ہے ۔ ایسا رقص کرنے والا عام طور پر وہ درویش ہوتا ہے جو شہنشاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔