(46)
ہُوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک
معانی: مغربیوں کا جنوں : اہل مغرب کا پاگل پن یا جوش ۔ چالاک: ہوشیار، پراثر ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اہل یورپ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغربی دانشور سائنس فلسفہ اور دیگر علوم میں مہارت رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر لوگوں پر اثر انداز ہونے کی قوت کے حامل ہیں اس کے باوجود وہ ان کی روح اور ضمیر کو تسخیر نہیں کر سکتے ۔ کہنے کا مقصد یوں ہے کہ یہ صلاحیت مشرقی رہنماؤں کی ہے جو ظاہر کے بجائے باطن کی پاکیزگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔
مئے یقین سے ضمیرِ حیات ہے پُرسوز نصیبِ مدرسہ یارب یہ آبِ آتشناک
معانی: ضمیرِ حیات : زندگی کا ضمیر ۔ آبِ آتشناک: جلا دینے والا پانی یعنی جوش پیدا کرنے والے جذبات ۔
مطلب: یقین محکم کی بدولت حیات انسانی جن اوصاف کی حامل ہے خدا کرے اسی نوع کا یقین محکم ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی نصیب ہو اور وہ اس سے استفادہ بھی کر سکیں ۔
عروجِ آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہکشاں ، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک
مطلب: انسان ہر چند کہ خاک سے پیدا ہوا ہے اس کے باوجود اس کی عظمت کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ ستارے، کہکشاں اور نیلی رنگت والے آسمان اس کے عروج اور ترقی کا ہر لمحے مطالعہ کرتے رہتے ہیں ۔ اور اس کا انتظار ہی اب ان کے لیے لازم ہے ۔
یہی زمانہَ حاضر کی کائنات ہے کیا دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بیباک
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا عصر موجود کے پاس یہی اثاثہ رہ گیا ہے کہ انسانی دماغ تو علم سے روشن اور تابندہ ہے لیکن دل میں عدم اعتماد کی تیرگی چھائی ہوئی ہے اور نگاہوں میں بے باکی تو ہے حیا کا فقدان ہے ۔
تو بے بصر ہو تو یہ مانعِ نگاہ بھی ہے وگرنہ آگ ہے مومن، جہاں خس و خاشاک
مطلب: مسلمانوں سے مخاطب ہو کر اقبال کہتے ہیں کہ تو اگر بینائی سے محروم ہے تو دنیا کے معاملات تجھ پر کھل نہیں سکتے ورنہ امر واقع تو یہ ہے کہ مومن تو ایک ایسی آتش فروزاں کی طرح ہے کہ اس کے بالمقابل دنیا دیکھا جائے تو خس و خاشاک کے مانند ہے اور کون نہیں جانتا کہ آگ خس و خاشاک کو کس طرح بھسم کر کے رکھ دیتی ہے ۔
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
معانی: مشعل راہ: راستے کی شمع ۔ صاحبِ ادراک: سمجھدار ۔
مطلب: دنیا نے تو محض عقل کو حرف آخر سمجھ رکھا ہے حالانکہ انسان میں مردانگی کا جوہر وہ جنوں عطا کرتا ہے جو عقل سے بھی زیادہ قوی ہے ۔
جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتہَ لولاک
معانی: نکتہَ لولاک: ایک حدیث قدسی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اے رسولﷺ اگر ہم تمہیں پیدا نہ کرتے تو یہ آسمان و زمین بھی پیدا نہ کرتے ۔
مطلب: اور امر واقعہ یہ ہے کہ تمام دنیا تو مرد مومن کا ورثہ ہے اور اس دعویٰ کی تصدیق لولاک سے کی گئی ہے کہ یہ کائنات خدا نے محض حضورِ اکرم کے لیے پیدا کی ہے ۔