Please wait..

پنجاب کے پیرزادوں سے

 
حاضر ہوا میں شیخِ مجدّد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار

مطلب: اس نظم کے عملاً دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے کے چار اشعار میں اقبال حضرت شیخ مجدد کی قبر کی زیارت اور ان کے اوصاف حمیدہ کا احوال بیان کرتے ہیں اور دوسرے حصے کا پہلا شعر حضرت شیخ مجدد سے خود اقبال ایک سوال کرتے ہیں ۔ باقی تین اشعار اسی سوال کے جواب پر مشتمل ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے پیرزادوں کی صورت حال کا اظہار خود شیخ مجدد نے کہا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پنجاب کے ان پیرزادوں کے اسلاف رب العزت کے برگزیدہ بندے تھے چنانچہ ان کے معتقدین نے ان کو بڑی بڑی جاگیرداریاں نذرانے کے طور پر پیش کیں ۔ ان بزرگوں کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے اپنے اسلاف کی روایت سے منہ موڑ لیا اور ان کے بزرگوں کی حاصل کردہ جاگیروں کی آمدنی نے ان پیرزادوں کو لہو و لعب اور عیاشی کا خوگر بنا دیا ۔ انہی دنوں انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا تسلط جمایا تو انھوں نے مفادات کے لیے ان پیرزادوں کو استعمال کیا اور ان کی جاگیروں کو برقرار رکھابلکہ ان کی جاگیروں اور مناصب میں بھی اضافہ کر دیا ۔ اس نظم کے آخری اشعار میں شیخ مجدد کی زبانی انہی پیرزادوں کی سرزنش کی گئی ہے ملاحظہ کیجیے ۔
اقبال فرماتے ہیں کہ میں شیخ مجدد الف ثانی کی قبر پر زیارت کے لیے گیا وہ اس خاک تلے دفن ہیں جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ زیر آسماں نورانی تجلیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے ۔

 
اس خاک کے ذّروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

معانی: صاحبِ اسرار: راز رکھنے والا ۔
مطلب: شیخ مجدد کی قبر کی مٹی ایسی بلند پایہ مٹی ہے جس کے ذروں کی تابانی اور درخشانی کے روبرو ستاروں کی چمک بھی ماند پڑ جاتی ہے ۔ یہی وہ خاک ہے جس میں شیخ مجدد الف ثانی جیسا اولوالعزم بزرگ محو خواب ہے ۔

 
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار

معانی: نفس گرم: گرم سانس ۔ گرمیِ احرار: آزاد لوگوں کا جوش ۔
مطلب: اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آزادی فکر و نظر کے حوالے سے وہ ایسے کردار کے مالک تھے جنھوں نے اپنے عہد کے تمام حریت پسند انسانوں کو متاثر کیا ۔ ان کا یہی کردار تھا کہ شہنشاہ جہانگیر جیسے شہنشاہ کے روبرو اپنے سر کو جھکانا گوارا نہ کیا ۔

 
وہ ہند میں سرمایہَ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

مطلب: اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر انھوں نے ملت اسلامیہ کے مفادات اور تصورات کے تحفظ کا اور اس مقصد کے لیے کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریز نہ کیا ۔

 
کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں مری بینا ہیں ، ولیکن نہیں بیدار

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانی سے میں نے دست بستہ درخواست کی کہ آپ تو راز فطرت کے امین ہیں ازراہ کرم مجھے بھی فقر کی دولت عطا کر دیں ۔ ہر چند میری آنکھوں میں اشیا کو ظاہری سطح پر دیکھنے کا جوہر تو موجود ہے اس کے باوجود باطن تک ان کی رسائی ممکن نہیں ۔ ان کو وہ روشنی عطا ہو کہ اس ضمن میں کامیاب ہو سکیں ۔

 
آئی یہ صدا سلسلہَ فقر ہُوا بند
ہیں اہلِ نظر کشورِ پنجاب سے بیزار

معانی: کشور: ملک ۔ بیزار: تنگ ہیں ۔ کلہ: ٹوپی ۔ فقر: اللہ کا خاص بندہ ۔
مطلب: میری اس درخواست کے جواب میں شیخ مجدکی قبر سے آواز آئی کہ پنجاب میں فقر کا جو سلسلہ تھا وہ تو ایک عرصے سے بند ہو چکا ہے اس لیے کہ اہل حق یہاں کے لوگوں اور ان کی ولایت سے مایوس و بیزار ہو چکے ہیں ۔

 
عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہّ کہ جس میں
پیدا کلہَ فقر سے ہو طرّہَ دستار

معانی: طرہَ دستار: پگڑی کا شملہ ۔ کلہَ فقر: اللہ والوں کی ٹوپی ۔
مطلب: اس لیے کہ جو لوگ معرفت الہٰی کا ادراک رکھتے ہیں وہ ایسے خطہ ارض میں قیام کرنا پسند نہیں کرتے جہاں طرہَ دستار عملاَ کلہ فقر کی جگہ لے لے ۔ یعنی اہل فقر اپنے منصب کو بھلا کر ظاہری عزوجاہ کے چکر میں پڑ جائیں ۔ وہ لوگ جو یہاں فقیری اور درویشی کی گدیوں کے مالک تھے اب وہی دنیاوی جاہ و جلال اور امارت کے سحر میں گرفتار ہو کر اپنے حقیقی مسلک سے منحرف ہو چکے ہیں ۔ انھوں نے اپنے اسلاف کی دولت و عزت کو دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ذاتی اغراض کے لیے وقف کر دیا ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اہل حق کا رشتہ برقرار نہیں رہا کرتا ۔

 
باقی کلہَ فقر سے تھا ولولہَ حق
طرّوں نے چڑھایا نشہَ خدمتِ سرکار

مطلب: عشق حقیقی کا ولولہ اور جوش تو کلہَ فقر تک محدود تھا جب کہ درویشی کا سلسلہ قائم رہا اور اہل فقر اس کی عظمت و منصب کے نگہبان رہے ان کے مقاصد کو گزند نہ پہنچا لیکن جب طرہَ دستار نے کلہَ فقر کی جگہ لے لی تو پھر فقر کی گنجائش کہاں رہی ۔ اب تو صورت یہ ہے کہ پنجاب کے جن بزرگوں نے یہاں درویشی کی محفلیں سجائیں ان کی اولاد سلسلہ فقر کو نظر انداز کر کے ذاتی منصب اور مدارج کے حصول کی خاطر حکمرانوں کی خوشامد میں مصروف ہے ۔ یہ لوگ خدمت حق کی جگہ انگریز کی خدمت گزاری کو اپنا نصب العین قرار دیے بیٹھے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے ۔