Please wait..

تضمین بر شعر صائب

 
کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا
نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامانِ رسوائی

معانی: صائب : فارسی کا مشہور شاعر مرزا محمد علی ، تخلص صائب ۔ تبریز میں پیدا ہوا ۔ افغانستان آ کر فکر معاش میں کابل کے صوبہ دار ظفر خاں کے دربار سے منسلک ہو گیا ۔ آخر اصفہان چلا گیا جہاں 1669ھ میں فوت ہوا ۔ سامانِ رسوائی: ذلت کا باعث ۔
مطلب: اقبال خود سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں اے اقبال! تو نے نہ جانے کیا سوچ کر اس شہر میں قیام کیا ہے جہاں شعر تو الگ رہا زبان سے کوئی بات نکالنا بھی ذلت کا سبب بن جاتا ہے ۔

 
شرارے وادیَ ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن
نہیں ممکن کہ پھوٹے اس ز میں سے تخمِ سینائی

معانی: شرارے وادیِ ایمن کے: مراد ایسے اشعار جو دلوں کو اسلام سے محبت ، حرارت اور جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں ۔ پھوٹنا: بیج کا اگ کر زمین سے باہر آنا ۔ تخمِ سینائی: مراد اسلام کی اشاعت بڑھنے کا عمل ۔
مطلب: بے شک تو اس بنجر زمین سے امن و ارتقا کا تقاضا کر رہا ہے لیکن اس زمین سے یہ توقعات وابستہ کرنا بے معنی سی بات ہے

 
کلی زورِ نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی
جہاں ہر شے ہو محرومِ تقاضائے خود افزائی

معانی: زورِ نفس: بہت تیز پھونک ۔ گل ہونا: کھل کر پھول بننا ۔ تقاضائے خود افزائی: خود کو آگے بڑھانے کی خواہش ۔
مطلب: جہاں افراد میں خود ترقی کرنے اور عملی جدوجہد کا جذبہ موجود نہ ہو وہاں یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے سانس کی قوت سے کلی کو پھول بنانے کی سعی کی جائے ۔

 
قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہلِ گلستاں کی
نہ ہے بیدار دل پیری، نہ ہمت خواہ برنائی

معانی: قیامت ہے: بہت دکھ کی بات ہے ۔ فطرت سو جانا: انسان کا بالکل بے حس ہو جانا ۔ اہلِ گلستاں : ملت کے لوگ ۔ بیدار دل: جہدو عمل کے جذبوں سے پُر دل ۔ پیری: بڑھاپا، مراد بوڑھی نسل کے لوگ ۔ ہمت خواہ: ہمت چاہنے والی ۔ برنائی: جوانی، نوجوان نسل ۔
مطلب: کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ملت اسلامیہ اپنی کارکردگی اور عمل سے محروم ہو چکی ہے نہ اس کے بوڑھوں میں بیداری رہی ہے نا ہی جوانوں میں ہمت و حوصلہ موجود ہے ۔

 
دلِ آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں
نوا گر کے لیے زہراب ہوتی ہے شکر خائی

معانی: دل آگاہ: باخبر دل، قومی و مذہبی تقاضوں سے باخبر ۔ خوابیدہ: سویا ہوا ۔ نواگر: نغمہ گانے والا یعنی شاعر ۔ زہراب: زہر ملا پانی، زہر ۔ شکر خائی: شکر چبانا، دل کش اور شیریں اشعار کہنا ۔
مطلب: جب باشعور لوگوں میں جذبہ احساس ختم ہو جاتا ہے تو شاعر کے لیے نغمہ گری کا عمل تلخ نوائی کا سبب بن جاتا ہے ۔

 
نہیں ضبطِ نوا ممکن تو اُڑ جا اس گلستاں سے
کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی

معانی: محفل: بزم، انجمن، قوم ۔ خوشتر: زیادہ اچھی ۔ تنہائی: اکیلا پن ۔
مطلب: تیرے لیے بہتر یہی ہے کہ اس بے حس مقام سے کہیں اور چلا جا کہ یہاں سے تو اجاڑ صحرا ہی بہتر ہے ۔

 
ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیاباں جلوہ گر باشد
ندارد تنگ نائے شہر تابِ حُسنِ صحرائی

مطلب: بہتر تو یہی ہے کہ لیلیٰ بیابان میں اپنا جلوہ دکھائے کیونکہ شہر کی تنگ جگہ یعنی تنگ دل لوگ صحرائی حسن کو برداشت نہیں کر سکتی ۔ یعنی صائب کہتے ہیں کہ مردہ دل قوم کے لیے زندہ قوموں کے ترانے بے معنی ہوتے ہیں ۔ یہ ترانے تو زندہ قوموں کو ہی زیب دیتے ہی