Please wait..

عاشق ِ ہرجائی

 
ہے عجب مجموعہَ اضداد اے اقبال تو
رونقِ ہنگامہَ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے

معانی: ہرجائی: مراد بے وفا ۔ مجموعہَ اضداد: جس میں ایک دوسرے کی مخالف عادتیں جمع ہوں ۔ عجب: حیران کرنے والا ۔ رونقِ ہنگامہَ محفل: محفل کے شور شرابے کی رونق ۔
مطلب: یہ نظم عاشق ہرجائی خود علامہ اقبال کی اپنی شخصیت سے متعلق ہے جس میں علی الترتیب دس اور پندرہ اشعار شامل ہیں ۔ یہاں لفظ ہرجائی کی بعض دوسری جہات بھی سامنے آتی ہیں جن کے تحت اس کے معنی ہیں ہر جگہ موجود رہنے والا، ہر ایک سے تعلق رکھنے والا اور ایک ایسا شخص جو کسی ایک مقام سے وابستہ نہ رہ سکے ۔ اس شعر سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ کوئی اور شخص اقبال سے اس کی ذات اور ان کی خصوصیت کے بارے میں استفسار کر رہا ہے لیکن خیال یہی ہے کہ نظم کے پہلے حصے میں اقبال خود ہی اپنے آپ سے مکالمہ کر رہے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ اے اقبال! یوں محسوس ہوتا ہے کہ تو متضاد صفات کا حامل ہے کبھی تو پوری محفل کی رونق تیرے دم سے ہے اور کبھی تنہائی کا شکار نظر آتا ہے ۔

 
تیرے ہنگاموں سے اے دیوانہَ رنگیں نوا
زینتِ گلشن بھی ہے، آرائشِ صحرا بھی ہے

معانی: دیوانہ: سودائی، عاشق ۔ رنگیں نوا: دل کش شعر کہنے والا ۔
مطلب: تیرے نغموں نے وہ ہنگامے برپا کیے ہیں جن کے سبب خواہ گلستان ہو خواہ صحرا دونوں میں بہا آئی ہوئی ہے ۔

 
ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعتِ پرواز سے
اے ز میں فرسا قدم تیرا فلک پیما بھی ہے

معانی: رفعت پرواز: اڑان کی بلندی ۔ زمین فرسا: مراد زمین پرچلنے والا ۔ فلک پیما: آسمان پر چلنے والا ۔
مطلب: تیرے تخیل کی بلندی نے عملاً تجھے فلک پر درخشندہ ستاروں کا ہم پلہ بنا دیا ہے ۔ ہر چند کہ تیری بودوباش تو ز میں پر ہے اس کے باوجود آسمانوں تک بھی تیری رسائی ہے ۔

 
عین شغلِ مے میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز
کچھ ترے مسلک میں رنگِ مشرب مینا بھی ہے

معانی: عین: مراد ایک ہی وقت ۔ شغلِ مے: شراب پینے کا مشغلہ ۔ سجدہ ریز: سجدے میں گرا ہوا ۔
مطلب: تو شراب پیتا ہے اور اسی عالم میں حیرت ہے کہ خالق حقیقی کے حضور سجدہ ریز بھی ہوتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے تیرے مسلک میں شراب حرام نہیں بلکہ حلال ہے ۔

 
مثلِ بوئے گل لباسِ رنگ سے عریاں ہے تو
ہے تو حکمت آفریں ، لیکن تجھے سودا بھی ہے

معانی: عریاں : ننگا، لباس کے بغیر ۔ حکمت آفریں : عقل و دانش کی باتیں کرنے والا ۔
مطلب: جس طرح پھول کی خوشبو کسی رنگ اور لباس کی محتاج نہیں کچھ ایسی ہی کیفیت تیری بھی ہے ۔ اگرچہ تیرا وجود حکمت و دانش سے بہرہ ور ہے اس کے باوجود تیری شخصیت میں کچھ جنوں کے آثار بھی ہیں ۔

 
جانبِ منزل رواں بے نقشِ پا مانندِ موج
اور پھر افتادہ مثلِ ساحلِ دریا بھی ہے

معانی: رواں : چلنے، بہنے والا ۔ بے نقشِ پا: پاؤں کے نشانوں کے بغیر ۔ مانند موج: لہر کی طرح ۔ افتادہ: گرا ہوا ۔
مطلب: جس طرح پانی کی لہر اپنا کوئی نشان چھوڑے بغیر رواں دواں رہتی ہے اسی طرح تو بھی منزل کی طرف رواں ہے لیکن تمام تر حرکت کے باوجود دریا کے کنارے ایک ہی مقام پر ٹھہرا ہوا بھی ہے ۔

 
حُسنِ نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے

معانی: حُسنِ نسوانی: عورت کی خوبصورتی ۔ بجلی: مراد آفت ۔ فطرت: طبیعت ۔ عجب: حیرانی کی بات ۔ بے پروا: پروا نہ کرنے والا ۔
مطلب: تیری فطرت کے لیے حسن نسوانی بجلی کی مانند کشش انگیز ہے ۔ اس کے باوجود اس حسن کے لیے تیرے دل میں بے نیازی کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے ۔

 
تیری ہستی کا ہے آئینِ تفنن پر مدار
تو کبھی اک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے

معانی: ہستی: زندگی ۔ آئینِ تفنن: دل لگی کا دستور ۔ مدار: انحصار ۔ آستانہ: چوکھٹ ۔ جبیں فرسا: ماتھا رگڑنے والا ۔
مطلب: تیری زندگی کا انحصار اعلٰی سطح پر تغیر اور انقلاب سے ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص کسی ایک مقام اور آستانے سے وابستہ نہیں ہو سکتا ۔

 
ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلوّن کیش! تو مشہور بھی، رسوا بھی ہے

معانی: خطاب: وہ خاص نام جس سے کسی کو بلایا جائے ۔ تلون کیش: جس کا مزاج بدلتا رہے ۔
مطلب: حسینوں کی بزم میں تجھے ایک ایسے فرد کی مانند گردانا جاتا ہے جو وفا سے نا آشنا ہوتا ہو ۔ یہی نہیں بلکہ تجھے بے وفا کے خطاب سے نوازا جاتا ہے ۔ تجھ میں مستقل مزاجی نام کو نہیں ۔

 
لے کے آیا ہے جہاں میں عادتِ سیماب تو
تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو

معانی: عادتِ سیماب: پارے کی طرح بے چین طبیعت ۔ صدقے: واری، قربان ۔
مطلب: یوں محسوس ہوتا ہے کہ تو اس عالم رنگ و بو میں پارے کی سی صفات لے کر آیا ہے ۔ تیری مضطرب کیفیت کے قربان جائیے! بے شک تو عجب بے چین اور بے تاب انسان واقع ہوا ہے ۔

(۲)

 
عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے
مشتِ خاک ایسی نہاں زیرِ قبا رکھتا ہوں میں

معانی: آشفتگی: بکھرے ہونے کی حالت، دیوانگی ۔ مشتِ خاک: مراد دل ۔ قبا: ایک خاص قسم کا لمبا اور کھلا لباس ۔
مطلب: نظم کے اس حصے میں اقبال ان استفسارات کا جواب دیتے ہیں جو پہلے حصے میں موجود ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ عشق کی آشفتہ سری نے میری شخصیت کو ویران و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور سچ پوچھیے تو زیر لباس جو جسم چھپا ہوا ہے وہ گوشت پوست کا نہیں بلکہ مٹی کا ہے ۔

 
ہیں ہزار اس کے پہلو، رنگ ہر پہلو کا اور
سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں

معانی: پہلو: مراد انداز ۔ رنگ: کیفیت ۔
مطلب: میرے دل کے اسی طرح بے شمار پہلو ہیں اور ہر پہلو کا رنگ ایک ترشے ہوئے ہیرے کے رنگوں کی مانند ہے کہ یہ رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔

 
دل نہیں شاعر کا، ہے کیفیتوں کی رستخیز
کیا خبر تجھ کو ، درونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں

معانی: کیفیتوں : جمع کیفیت، حالتوں ۔ رستخیز: قیامت ۔ درونِ سینہ: دل کے اندر ۔
مطلب: دیکھا جائے تو شاعر کا دل عملاً دل نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ایک طرح سے جذبات و احساسات کے ہنگاموں کی آماجگاہ ہوتا ہے ۔ اے بے خبر تجھے کیا پتہ کہ اس سینے میں کیا ہے ۔ دل یا کوئی اور شے کہ یہ سکون سے بالکل بے گانہ ہے ۔

 
آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے
مضطرب ہوں ، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں میں

معانی: مضطرب: بے چین ۔ سکوں نا آشنا: جسے آرام کی خبر نہ ہو ۔
مطلب: میری ہر کیفیت میں ایک نئے جلوے کی آرزو پوشیدہ ہے ۔ یہی باعث ہے کہ میرا دل بے چین رہتا ہے ۔ یہی بے چینی میرا سکون برباد کیے ہوئے ہے ۔

 
گو حسینِ تازہ ہے ہر لحظہ مقصودِ نظر
حُسن سے مضبوط پیمانِ وفا رکھتا ہوں میں

معانی: حسینِ تازہ: نیا محبوب ۔ مقصودِ نظر: مراد دیکھنے کی آرزو ۔ پیمانِ وفا: وفا کا عہد ۔
مطلب: اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میرے پیش نظر عام طور پر ایک نیا مظہر حسن ہو سکتا ہے اس کے باوجود یہ امر بھی واضح ہے کہ میں نے ہمیشہ حسن سے جو پیمان و فا باندھا ہوتا ہے وہ ہمیشہ مستحکم ہوتا ہے ۔

 
بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز
سوز و سازِ جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں

معانی: نیاز: عاجزی ۔ سوز و سازِ جستجو: مراد عشق کی تپش اور اس کا مزہ ۔ مثل صبا: ہوا کی طرح ۔
مطلب: یہ بھی سن لو کہ میرے حوالے سے جس شے کو بے نیازی کہا جاتا ہے وہی تو میری فطرت میں عجز و انکساری کی آئینہ دار ہے ۔