Please wait..

ظریفانہ

 
مشرق میں اصولِ دین بن جاتے ہیں
مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں

معانی: مشرق: مشرقی ممالک ۔ مغرب: یورپ، یورپی ممالک ۔ اصول: جمع اصل، قاعدے، ضابطے ۔ دین بننا: دین کی حیثیت اختیار کر لینا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ مشرقی ممالک کے لوگ اس قدر سادہ اور قدامت پرست ہیں کہ زندگی کے عام اصولوں کو بھی دین کا درجہ دے دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس مغربی ممالک میں سب جانتے ہیں کہ صنعتی ترقی اس نہج پر پہنچی ہوئی ہے کہ یہ اصول میکا نکی بن جاتے ہیں ۔

 
رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلّے
واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں

معانی: واں : یورپ ۔ تین تین: ذو معنی ہے ۔ اس سے مراد تثلیت ہے یعنی عیسائی مذہب کا تین خدا کا عقیدہ ۔
مطلب: نتیجہ بالعموم یہ برآمد ہوتا ہے کہ مشرقی ممالک سے جو نوجوان حصول تعلیم کے لیے مغربی ممالک جاتے ہیں وہ عام طور پر وہاں عیسائیت سے متاثر ہو کر تثلیث کے قائل ہو جاتے ہیں ۔

(**)

 
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

معانی: فلاح: نجات، بہتری ۔
مطلب: مسلم لڑکیاں میں انگریزی پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ ان کے لیے خصوصی کالجوں کا اجرا ہو رہا ہے ۔ اقبال طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ یوں لگتا ہے لڑکیوں کو انگریزی پڑھا کر قوم فلاح پا جائے گی ۔

 
روشِ مغربی ہے مدِ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ

معانی: روشِ مغربی: انگریزوں کے طور طریقے ۔ مدِ نظر: نگاہوں کے سامنے ۔ وضعِ مشرق: مشرقی ملکوں کے طور طریقے ۔ گناہ جاننا: برا جاننا ۔
مطلب: لیکن ہوا یوں ہے کہ لوگوں نے اس طرح سے مغرب کی تہذیب اپنا لی ہے کہ وہ اپنی وضع کو عملی سطح پر گناہ سے تعبیر کرنے لگے ہیں ۔

 
یہ ڈراما دکھائے کا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

معانی: ڈراما: لڑکیوں کا مغربی روش اختیار کرنا ۔ سین: منظر، مراد انجام ۔ پردہ اٹھنا: سٹیج کا پردہ جس کے ہٹنے پر ڈراما شروع ہوتا ہے ۔
مطلب: اگر اس صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہ ہو گا کہ لڑکیوں میں جو انگریزی زبان عام کرنے کا عمل اپنایا گیا ہے وہ ایک ڈرامے کی حیثیت رکھتا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہو سکے گا جب لوگوں کے سامنے نتاءج آئیں گے ۔

 
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے

معانی: ملا، مذہبی پیشوا ۔ پردہ: عورتوں کا نقاب ۔ حامی: طرف دار ۔
مطلب: ایک عالم دین کی حیثیت سے اگرچہ شیخ صاحب آئے دن پردے کی حمایت میں تقریر کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں کالج کے طلبا انہیں قدامت پرست اور جدید اقدار کا دشمن سمجھتے ہوئے شیخ صاحب کے خلاف ہو گئے ۔

 
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہو، جب مرد ہی زن ہو گئے

معانی: جب مرد ہی زن ہو گئے: آدمیوں نے عورتوں کے سے طور طریقے اختیار کر لیے ۔
مطلب: حالانکہ اس مخالفت کی ضرورت نہ تھی جب کہ کل انھوں نے اپنے ایک وعظ میں یہ بات صاف صاف کہہ دی تھی کہ اب پردے کی قطعاً ضرورت نہیں رہی اس لیے کہ بناوَ سنگھار کے ذریعے جب نوجوانوں نے ہی خواتین کی سی وضع قطع اختیار کر لی تو پردہ پھر کس سے کیا جائے ۔

 
یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوش مند
غیرت نہ تجھ میں ہو گی ، نہ زن اوٹ چاہے گی

معانی: کوئی دن کی: چند دنوں تک کی ۔ مردِ ہوشمند: دانا ۔ زن: عورت ۔ اوٹ: پردہ، نقاب ۔
مطلب: اے ہوشمند انسان! وہ دن اب زیادہ دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے جب کہ نہ تجھ میں غیرت باقی رہے گی نا ہی عورت پردے میں مستور رہنا پسند کرے گی ۔

 
آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض
کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی

معانی: عوض: بدلہ، بدلے میں ۔ کونسل: مرکزی یا صوبائی قانون ساز ادارہ ۔ ممبری: رکنیت ۔
مطلب: مستقبل میں وہ دور آنے والا ہے جب عورت کو اولاد کی قطعاً پرواہ نہ ہو گی بلکہ اس کی بجائے کونسل کی رکنیت کے لیے الیکشن میں حصہ لے گی اور لوگوں سے ووٹ مانگتی پھرے گی ۔

 
تعلیمِ مغربی ہے بہت جراَت آفریں
پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ

معانی: جرات آفریں : بہادر بناتی ہے ۔ مار ڈینگ: شیخی بگھارنا ۔
مطلب: مغرب کی تعلیم انتہائی جرات انگیز ہوتی ہے اور پہلا سبق جو کسی طالب علم کو کالج میں داخلے کے بعد ملتا ہے وہ ڈینگ مارنے اور شیخی بگھارنے کا ہوتا ہے ۔

 
بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط
آغا بھی لے کے آتے ہیں اپنے وطن سے ہینگ

معانی: بستے ہیں : رہتے ہیں ۔ آغا: مراد افغانی باشندہ، پٹھان ۔ ہینگ: ایک درخت کا گوند جو کئی بیماریوں کے لیے مفید ہے ۔
مطلب: کہتے ہیں ہندوستان تو ایک منڈی کی طرح ہے جہاں بیرو نجات سے اشیائے ضرورت آ کر فروخت ہوتی ہیں ۔ اس ملک میں خود اتنی صلاحیت نہیں کہ صنعتی سطح پر اپنے لیے کوئی سامان ضرورت تیار کرے یہاں کی حالت تو اتنی گئی گزری ہے کہ ہینگ جیسی معمولی شے بھی درکار ہو تو وہ کابل جیسے علاقے کے لوگ یہاں لے کر آتے ہیں ۔

 
میرا یہ حال، بوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں میں
اُن کا یہ حکم، دیکھ! مرے فرش پر نہ رینگ

معانی: بوٹ کی ٹو چاٹنا: حکمرانوں کی خوشامد کرنا ۔ دیکھ: خبردار ۔ رینگنا: فرش پر کیڑے کی طرح آہستہ آہستہ چلنا ۔
مطلب: اقبال اہل ہند کی غلامانہ ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے آقاؤں کی خوشامد میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے کہ ان کے بوٹ کی ٹو تک چاٹنے سے نہیں شرماتے اور ہمارے آقا انگریز اس قدر خوشامد کے باوجود ہم سے انتہائی متکبرانہ سلوک کرتے ہیں اور بوٹ چاٹتے ہوئے اپآ فرش خراب ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔

 
کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوکدار سینگ

معانی: بھدا: بدصورت ۔
مطلب: غزل کے اس شعر میں اقبال اونٹ اور گائے ، دو کردار پیش کیے ہیں ۔ اونٹ سے مراد مسلمان ہیں اور گائے سے ہندو ۔ انگریز ہندوستان میں قیام کے دوران مسلمانوں کی ہمیشہ تضحیک کرتے رہے ۔ اس کا بنیادی سبب یہی تھا کہ ہندوستان میں مقیم مسلمانوں نے ان کے اقتدار کے خلاف ہمیشہ نبرد آزمائی کی جب کہ ہندووَں نے ان کا ساتھ دیا ۔ چنانچہ انگریز اس حوالے سے کہ مسلمان عرب سے آئے تھے اور اونٹ وہاں کارآمد ہونے کے باوجود بھدا سا جانور ہے اس کے برعکس ہندو گائے کی پرستش کرتے ہیں اس لیے انہیں گائے سے تشبیہ دی ہے ۔

(**)

 
کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں

معانی: حضرت واعظ: منبر پر چڑھ کر وعظ کرنے والا ۔ تنگ دست: مفلس، غریب ۔ تہذیب نو: جدید معاشرہ جس پر انگریزی تہذیب کا اثر ہے ۔ سر خم کرنا: سر جھکانا ۔
مطلب: اس میں اقبال مفاد پرست واعظوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو محض چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے دین کے بنیادی اصولوں کی تردید سے بھی نہیں چوکتے ۔ سو اقبال کہتے ہیں کہ اگر حضرت واعظ ان دنوں معاشی طور پر پریشان ہیں تو انہیں اس کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے ۔

 
ردِ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں

معانی: ردِ جہاد: جہاد کے خلاف، ایک مرزائی رہنما نے فتویٰ دیا تھا کہ اس دور میں جہاد کی ضرورت نہیں رہی ۔ تردیدِ حج میں : یعنی حج کی بھی ضرورت نہ رہنے کے متعلق ۔ رقم کرنا: لکھنا ۔
مطلب: اسلام میں اصول جہاد کو بعض واعظوں نے غیروں کو خوش کرنے اور مال بنانے کے لیے بہت کچھ لکھا اب اس مقصد کے لیے مناسب موقعہ ہے کہ واعظ حضرت اصول حج کے خلاف بھی کوئی رسالہ لکھ ڈالیں ۔

(**)

 
تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ
دفعِ مرض کے واسطے پل پیش کیجیے

معانی: تہذیب کا مریض: برصغیر کا وہ شخص جس کے سر پر مغربی یعنی انگریزی تہذیب کا بھوت سوار ہو، مغرب زدہ ۔ گولی: دوائی کی چھوٹی سی ٹکی ۔ دفعِ مرض: بیماری دور کرنا: پل: انگریزی میں دوائی کی ٹکیا ۔
مطلب: نئی تہذیب کے مارے ہوئے کسی مریض کو اگر ڈاکٹر دوا دیتا ہے اور وہ مریض سے کہتا ہے کہ یہ گولی کھا لیجیے تو وہ اس سے متاثر ہونے کی بجائے دفع مرض کے لیے پِل پیش کرنے پر اظہار مسرت کرتا ہے ۔

 
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہَ دل پیش کیجیے

مطلب: ایک دور وہ بھی تھا کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ جس شفقت کے ساتھ درس دیتے تھے تو ان کی عنایت پر دل پیش کرنے کو جی چاہتا تھا ۔

 
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بِل پیش کیجیے

مطلب: اب اس طرح سے زمانہ اور اس کی تہذیب بدل چکی ہے کہ طالب علم استاد سے سبق لینے سے قبل اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ فرمائیے آپ کا بل یعنی معاوضہ کتنا ہے ۔

(**)

 
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے

معانی: مسکین: بے کس، محتاج، غریب ۔ دل اٹکنا: محبت ہو جانا ۔ کنٹر: ڈبا، ڈبے ۔ بلوری: شیشے کا ۔ مٹکا: مٹی کا گھڑا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم مشرق کے لوگ اب مغربی تہذیب کی طرف مائل ہو چکے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کی تہذیب میں جو چمک دمک ہے وہ مشرق کی قدیم تہذیب میں نہیں ہے ۔ مغرب میں بڑی تیزی کے ساتھ نظریات اور فکر میں تبدیلی آ رہی ہے جب کی مشرق کے لوگ اپنی پرانی ڈگر سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔

 
اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے

معانی: اپنی راہ پر قائم: اپنے مقصد، بات پر ڈٹا ہوا ۔ ہٹ کا پکا: ضد یا اصرار پر اڑا رہنے والا ۔
مطلب: مغرب پرست اس دور میں سب مٹ کر رہ جائیں مگر وہ باقی رہ جائے گا جو اپنی راہ پر قائم ہے اور جو اپنی ضد پر اڑا رہنے والا ہے جو اپنے مقصد سے کبھی پیچھے ہٹنے والا نہیں ۔

 
اے شیخ و برہمن سنتے ہو! کیا اہلِ بصیرت کہتے ہیں
گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے

معانی: اہل بصیرت: دانا، عقلمند ۔ گردوں : آسمان ۔ دے پٹکا: اوپر سے نیچے گرا دینا، زوال کا شکار کرنا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال شیخ و برہمن یعنی مسلمانوں اور ہندووَں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سنو اہل بصیرت کیا کہتے ہیں کہ جو قو میں باہم دست و گریبان رہیں اور آپس میں اتحاد و اتفاق قائم نہ رکھ سکیں وہ انتشار و زوال کا شکار ہو ئیں اور پستی کی تہہ میں گرتی چلی گئیں ۔

 
یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستورِ محبت قائم تھا
یا بحث میں اُردو ہندی ہے، یا قربانی یا جھٹکا ہے

معانی: باہم پیار کے جلسے: آپس میں پیار محبت کے ساتھ محفلیں جمانے کا عمل ۔ اردو ہندی: مسلمان اردو کو اور ہندو ہندی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان کہتے تھے ۔
مطلب: وہ زمانہ بھی تھا جب ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مل کر محفلیں سجاتے تھے لیکن اب ان میں نفرت اور نفاق کا یہ عالم ہے کہ کبھی مل بیٹھنے کا موقع بھی ملا تو ان میں یا تو اردو ہندی کی بحث چھڑ جاتی ہے یا قربانی اور جھٹکے کے معاملات پر تلخی پیدا ہو جاتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ان میں قطعی طور پر قوت برداشت نہیں ہو رہی اور چھوٹی چھوٹی باتیں ان کے مابین سر پھٹول کا سبب بن جاتی ہیں ۔

 
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
غالب کا قول سچ ہے تو پھر ذکرِ غیر کیا

معانی: اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے: یعنی کائنات میں جو کچھ نظر آ رہا ہے ، دیکھنے والا، اور دیکھا گیا سب ایک ہے ۔ غالب: اسد اللہ خان غالب ۔ قول: بات ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ غالب نے اپنے مصرعہ میں کہا ہے کہ خدا کی ذات، اس کی ذات دیکھنے والوں اور اس کی ذات کی گواہی دینے والوں میں ، یعنی ان تینوں میں بظاہر فرق نہیں ۔ وحدت الوجود کے عقیدے کے مطابق انسان، کائنات اور خدا اور حقیقت ایک ہی وجود کی ظاہری شکلیں ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر غالب کا یہ قول حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ان مسلمانوں کو جو بتوں سے تو عشق کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس صورت میں برہمن سے دشمنی کا مظاہرہ کیوں ہوا ۔

 
کیوں اے جنابِ شیخ! سُنا آپ نے بھی کچھ
کہتے تھے کعبہ والوں سے کل اہلِ دیر کیا

معانی: جنابِ شیخ: ملا صاحب، مولوی صاحب ۔ کعبہ والے: مراد مسلمان ۔ اہلِ دیر: مندر والے،ہندو ۔
مطلب: ان اشعار میں غالب کے قول کے حوالے اقبال کہتے ہیں کہ انسان جب ایک عمل کرتا ہے تو اس سے متعلق دوسرے عمل کو بھی اپنانا پڑتا ہے ۔

 
ہم پوچھتے ہیں مسلم عاشق مزاج سے
الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا

مطلب: اس صورت میں ایک جانب تو ہندو دیویوں سے محبت کا اظہار اور دوسری جانب برہمن سے نفرت یہ امر کچھ مناسب معلوم نہیں دیتا ۔

(**)

 
ہاتھوں سے اپنے دامنِ دنیا نکل گیا
رخصت ہُوا دلوں سے خیالِ معاد بھی

معانی: ہاتھ سے دامنِ دنیا نکل جانا: مراد دنیاوی خواہشات اور ضرورتیں پوری نہ ہونا ۔ رخصت ہونا: نکل جانا، ختم ہو جانا ۔ معاد: آخرت، عقبیٰ ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جب دنیا ہی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تو سمجھ لو کہ ہم نے دین کو بھی بڑی حد تک نظر انداز کر دیا اور ہمارے دلوں میں بے دینی نے راہ پا لی ۔

 
قانونِ وقف کے لیے لڑتے تھے شیخ جی
پوچھو تو وقف کے لیے ہے جائداد بھی

معانی: قانونِ وقف: 1914 میں حکومت ہند کا جائداد وقف کرنے کا قانون ۔
مطلب: ان حالات میں شیخ صاحب قانون وقف علی الاولاد کے لیے آئینی جنگ تو بے شک لڑ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس نوع کے وقف کے لیے جائیداد بھی موجود ہے یا نہیں کہ وہ تو ہم نے اپنی عیاشیوں میں اڑادی ہے ۔

(**)

 
وہ مس بولی، ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے
مہذّب ہے تو اے عاشق! قدم باہر نہ دھر حد سے

معانی: تہذیب یافتہ، سلیقے اور سمجھ بوجھ والا ۔ قدم باہر نہ دھر حد سے: یعنی اعتدال ، میانہ روی نہ چھوڑ ۔
مطلب: نوجوان عاشق کہتا ہے کہ جب اپنی انگریز محبوبہ سے مایوس ہو کر میں نے اس پر خودکشی کرنے کا ارادہ ظاہرکیا تو وہ محبوبہ بولی کہ اے مجھے چاہنے والے! تو تو انتہائی مہذب ہونے کا دعویدار ہے پھر اس طرح خودکشی کا ارادہ کر کے آپے سے باہر کس لیے ہو رہا ہے کہ خودکشی تو بزدل اور غیر مہذب لوگ کیا کرتے ہیں ۔

 
نہ جرات ہے، نہ خنجر ہے، تو قصدِ خودکشی کیسا
یہ مانا دردِ ناکامی گیا تیرا گزر حدسے

معانی: دردِ ناکامی: محبت میں کامیاب نہ ہونے کا دکھ ۔
مطلب: یوں بھی اے عاشق نامراد! نہ تو تیرے پاس خودکشی کرنے کے لیے کوئی خنجر یا پستول ہے نا ہی اتنی جرات اور حوصلہ کہ یہ قدم اٹھا سکے ۔ ہر چند کہ محبت میں ناکامی کے سبب تیری مایوسی حد سے بڑھ چکی ہے پھر بھی خودکشی تیرے بس کا روگ نہیں ۔

 
کہا میں نے کہ اے جانِ جہاں کچھ نقد دلوا دو
کرائے پر منگا لوں گا کوئی افغان سرحد سے

معانی: دنیا کی جان، دنیا کی رونق ۔
مطلب: انگریز محبوبہ کا یہ جواب سن کر میں نے کہا اے دل و جان سے عزیز دوشیزہ! یہ کوئی مسئلہ نہیں اس کے لیے تو اجرت پر کسی پٹھان کو سرحد سے بلوا لوں گا تم تو بس یہ کرو کہ اس مقصد کے لیے کچھ نقد رقم دلوا دو ۔

(**)

 
ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر
حاصل ہوا یہی، نہ بچے مارپیٹ سے

مطلب: اس قطعے میں اقبال نے ایک جنگ کی طرف اشارہ کیا جس میں ترکی کو محض اس لیے شکست ہوئی کہ میدان جنگ تک اسلحہ اور رسد نہ پہنچ سکے ۔ اس وقت ترکی کے پاس کوئی بحری بیڑہ نہ تھا ۔ عربوں سے بھی شدید اختلافات تھے ۔

 
مغرب میں ہے جہازِ بیاباں شُتر کا نام
ترکوں نے کام کچھ نہ لیا اس فلیٹ سے

مطلب : حالانکہ ان کی مدد اونٹوں کے ذریعے سامان رسد میدان جنگ تک پہنچ سکتا تھا ۔ جب کہ انہیں اس امر کا علم بھی تھا کہ اہل مغرب اونٹ کو صحرا کا جہاد کہا کرتے ہیں ۔

(**)

 
ہندوستاں میں جزوِ حکومت ہیں کونسلیں
آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا

معانی: جزو: حصہ ۔ کونسلیں : جمع کونسل، صوبائی یا مرکزی قانون ساز ادارے ۔ کمال: ترقی ۔
مطلب: اقبال فرماتے ہیں کہ اب ہندوستان میں کونسل کا وجود حکومت کا جزو تصور کیا جانے لگا ہے ۔ یوں سیاست میں ہم ہندوستانیوں کے انتہائی عروج کا یہ نقطہ آغاز ہے ۔

 
ہم تو فقیر تھے ہی، ہمارا تو کام تھا
سیکھیں سلیقہ اب اُمرا بھی سوال کا

مطلب: ہم عام ہندوستانی تو خیر فقیر کی مانند اپنے مسائل کے سلسلے میں ہر لمحے دست طلب و دراز کرتے رہتے تھے تاہم اب یہ امرا پر بھی لازم ہو گیا ہے کہ وہ کونسل کے رکن کی حیثیت سے یہاں اپنے مطالبات منوانے کے لیے دست طلب دراز کرنے کا سلیقہ سیکھ لیں اس کے بغیر تو ان کی شنوائی نہ ہو سکے گی ۔

(**)

 
ممبری، امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں
ووٹ تو مل جائیں گے، پیسے بھی دلوائیں گے کیا

معانی: امپیریل کونسل: برصغیر میں انگریز حکومت کے دوران بنائی جانے والی حکومت جسے وائسرائے کی کونسل کہا جاتا تھا ۔
مطلب: اس قطعہ میں اقبال نے انتخابات کے ضمن میں ایک ایسی لعنت کی طرف اشارہ کیا ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں بھی موجود تھی اور سلسلہ آج تک راءج چلا آتا ہے ۔ اسمبلی اور کونسلوں کے انتخابات میں اس وقت بھی سرمایہ دار طبقہ ہی حصہ لینے کا اہل سمجھا جاتا تھا اور اسی نوے سال گزرنے کے بعد جب ہم اپنی قومی جمہوریت کے مراحل میں داخل ہو چکے ہیں یہ سلسلہ ماضی کی طرح جاری و ساری ہے ۔ یعنی امیدوار سرمایہ دار ہوتا تھا جو اپنے اقتدار کے لیے ووٹروں کو خریدتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ آج بھی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو چکی ہے ۔ چنانچہ اس قطعے میں اقبال نے متذکرہ قسم کے ایک امیدوار اور ووٹر کے مابین مکالمہ نظم کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت بے شک آپ پوری کونسل کی رکنیت کے اہل بھی ہیں اور اپنی انتخابی مہم میں کامیاب ہو کر کونسل میں پہنچ بھی جائیں گے ۔ لیکن یہ تو فرمائیے کہ اس کا معاوضہ ہ میں کیا دلوائیں گے ۔

 
میرزا غالب خدا بخشے! بجا فرما گئے
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں ، کھائیں گے کیا

مطلب: اس شعر میں علامہ نے غالب کے ایک مصرعہ سے استفادہ کرتے ہوئے ووٹر کی زبان سے یہ مکالمہ دوہرایا ہے کہ حضرت آپ نے ممتاز شاعر حضرت غالب کا یہ مصرعہ تو ضرور سنا ہو گا کہ جس میں وہ فرماتے ہیں کہ بے شک ہم یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ دہلی میں قیام کرنا اپنی جگہ تا ہم گزر بسر اور کھانے پینے کے لیے کچھ سازو سامان کی ضرورت ہوتی ہے سو اس کا اہتمام بھی کر دیجیے ۔

(**)

 
دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہو گی
نہ ہو حضور سے الفت، تو یہ ستم نہ سہیں

معانی: مہر و وفا: محبت اور ساتھ نبھانا ۔ حضور: مراد حاکم ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ ایک خوشامدی شخص نے انگریز افسر سے کہا ہ میں حضور سے جس قدر محبت ہے اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ ہمارے اپنے بھائی آپ سے محبت وفاداری کی بنا پر ہ میں طعن و تشنیع اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہی بات حضور سے ہماری وفاداری کی دلیل ہے ۔

 
مُصِر ہے حلقہ کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی
مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں

مطلب: جس حلقے سے ہم کمیٹی کا انتخاب لڑ رہے ہیں وہاں کے لوگ جو ہمارے رائے دہندگان بھی ہیں یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کی بات بھی کریں جب کہ ہم اس امر کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ ضلع کے حاکم اعلیٰ یعنی کلکٹر کا ان معاملات میں کیا نقطہ نظر ہے اور اس کی مرضی کیا ہے ۔

 
سند تو لیجیے، لڑکوں کے کام آئے گی
وہ مہربان ہیں اب، پھر رہیں ، رہیں نہ رہیں

مطلب: اس شعر میں ایک ایسے مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو انگریزی دور میں عام روایت بن گیا تاکہ متعدد لوگ انگریز افسروں کی خوشامدوں کی بدولت خوشنودی کی سند حاصل کر لیتے اور بعد میں اسی سند کو دکھا کر اس افسر یا اس کے بعد آنے والے افسروں سے اپنے کام نکلواتے ۔ چنانچہ ایسا ہی ایک خوشامدی شخص کہتا ہے کہ میں اس افسر سے سند تو حاصل کر لوں تا کہ اپنے کام نکلوا سکوں بعد میں کیا پتہ یہ لوگ اسی طرح مہربان رہیں یا نہ رہیں ۔ ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج سالہا سال گزرنے کے باوجود انگریز کی یہ بدعت آج بھی بدستور قائم ہے ۔ انتخابات ہوں ، رائے دہندگان کے ووٹ خریدنے اور ملازمتوں کے حصول میں ایسی ہی قباحتیں موجود ہیں ۔

 
زمین پر تو نہیں ہندیوں کو جا ملتی
مگر جہاں میں ہیں خالی سمندروں کی تہیں

معانی: ہندیوں : ہندوستان کے رہنے والے ۔ جا: جگہ:
مطلب: انگریز کی غلامی کے دور میں یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی باشندوں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے اور کسی جگہ پر بھی انہیں عزت و وقار سے نہیں دیکھا جاتا چنانچہ غیرت منڈی کا تقاضا تو یہی ہے کہ سمندروں میں کود کر خود کشی کر لیں کہ ان کی تہوں میں لاشوں کو پناہ تو بہرحال مل ہی جائے گی کہ غلامی میں دکھوں اور تکلیفوں کا علاج موت کے سوا اور کچھ نہیں ۔

 
مثالِ کشتیِ بے حس مطیع فرماں ہیں
کہو تو بستہَ ساحل رہیں ، کہو تو بہیں

مطلب: ہم ہندوستانی تو اس دور غلامی میں ایک ایسی کشتی کی مانند ہیں جو ساحل پر بندھی ہوئی ہے جب ملاح چاہتا ہے اسے کھول دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق جس طرف چاہے کھیتا چلا جاتا ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی انگریزوں کے احکام کے اس طرح مطیع ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے ۔

(**)

 
فرما رہے تھے شیخ طریق عمل پہ وعظ
کفار ہند کے ہیں تجارت میں سخت کوش

طریقِ عمل: عمل کرنے کا طریقہ ، انداز ۔ وعظ: نصیحت کی بات ۔ کفار: کافر کی جمع، خدا کو نہ ماننے والے ۔ سخت کوش: بہت محنت کرنے والے ۔
مطلب: مسلمانوں کے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے واعظ کہہ رہا تھا کہ ہندوستان میں جو غیر مسلم تاجر ہیں وہ لین دین اور تجارت کے سلسلے میں بڑے سخت گیر واقع ہوئے ہیں ۔

 
مشرک ہیں وہ جو رکھتے ہیں مُشرک سے لین دین
لیکن ہماری قوم ہے محرومِ عقل و ہوش

مطلب: یہ جان لو کہ وہ لوگ جو مشرک سے لین دین رکھتے ہیں وہ بھی مشرک ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ہماری قوم عقل و ہوش سے محروم ہے ۔

 
ناپاک چیز ہوتی ہے کافر کے ہاتھ کی
سُن لے، اگر ہے گوش، مسلماں کا حق نیوش

معانی: محرومِ عقل و ہوش: جسے کوئی شعور اور سمجھ بوجھ نہ ہو ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ کافر جس چیز کو چھو لے وہ ناپاک و نجس ہو کر رہ جاتی ہے چنانچہ اے مسلمان اگر تم میں حقائق کا سامنا کرنے کی جرات ہے تو یہ بات کان کھول کر غور سے سن لو ۔

 
اک بادہ کش بھی وعظ کی محفل میں تھا شریک
جس کے لیے نصیحتِ واعظ تھی بارِ گوش

معانی: بادہ کش: شراب پینے والا ۔ بارِ گوش: کانوں کے لیے بوجھل یعنی ناپسند، ناگوار ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ واعظ کی اس محفل میں ایک شرابی بھی بیٹھا ہوا تھا ۔ اس شرابی نے واعظ کی اس ناصحانہ تقریر کو سنا تو اسے یہ بات ناگوار گزری ۔

 
کہنے لگا ستم ہے کہ ایسے قیود کی
پابند ہو تجارتِ سامانِ خورد و نوش

معانی: سامانِ خوردونوش: کھانے پینے کی چیزیں ۔
مطلب: اس نے اٹھ کر بیساختہ کہا کہ حضرت آپ تو کھانے پینے کی اشیاَ پر جس طرح پابندی عائد کر رہے ہیں یہ طرز فکر تو بڑی افسوس ناک ہے ۔ بھلا تجارت میں اس نوعیت کی پابندیاں جو آپ عائد کر رہے ہیں وہ کس طرح روا رکھی جا سکتی ہیں ۔

 
میں نے کہا کہ آپ کو مشکل نہیں کوئی
ہندوستاں میں ہیں کلمہ گو بھی مے فروش

معانی: کلمہ گو: کلمہ پڑھنے والے، مسلمان ۔ مے فروش: شراب بیچنے والا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میں نے اس شرابی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گھبرائیے نہیں آپ کو اپنے شغل میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کہ یہاں مسلمان شراب فروش بھی موجود ہیں