Please wait..

(۹)

 
کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے 
مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے 

معانی: آرزوئے بیدلی: عاشقی کی تمنا ۔ سودائے زیاں : گھاٹے ، نقصان کا کاروبار ۔
مطلب: میرے لیے اس امر کا انکشاف ناممکنات میں سے ہے کہ میرے دل میں مبتلائے عشق ہونے کی کتنی آرزو ہے ۔ یوں بھی یہ حقیقت ہے کہ میں نے زندگی میں ہمیشہ خسارے کا سودا ہی کیا ہے ۔ یہ خسارہ خواہ عشق میں ہو خواہ عام معاملات میں ، بہرحال یہ خسارہ ہی میری تقدیر کا بنیادی عنصر ہے ۔

 
وہ میکش ہوں فروغِ مے سے خود گلزار بن جاؤں 
ہوائے گل فراقِ ساقیِ نامہرباں تک ہے 

معانی: مے کش: شراب پینے والا ۔ فروغ: چمک، روشنی ۔ گلزار: گلاب کے پھولوں کا باغ ۔
مطلب: میں تو اس نوع کا شراب نوش ہوں کہ جس کا چہرہ نشے کی زیادتی کے سبب خود مانند گلاب سرخ ہو جاتا ہے ۔ میرا نامہربان ساقی جب شراب پلا کر مجھے مدہوش کرد یتا ہے تو میں خود اپنی ذات میں اس قدر محو ہو جاتا ہوں کہ مجھے پھولوں اور گلزار کی طرف دیکھنے کی حاجت ہی نہیں ہوتی ۔

 
چمن افروز ہے صیاد میری خوشنوائی تک 
رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے 

معانی: چمن افروز: باغ کو روشن کرنے والی ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال آلام و مصائب کی نشاندہی کرتے ہیں جن سے انسان دوچار رہتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں چمن میں خوش الحانی سے نغمے گاتا رہوں گا تو صیاد میری تاک میں رہے گا اور پھر موقع ملتے ہی مجھے پابند قفس کر دے گا ۔ اسی طرح بجلی بھی اسی وقت تک بیتاب و مضطرب رہے گی جب تک کہ وہ میرا آشیانہ جلا کر خاک نہ کردے ۔

 
وہ مشتِ خاک ہوں ، فیضِ پریشانی سے صحرا ہوں 
نہ پوچھو میری وسعت کی، ز میں سے آسماں تک ہے 

معانی: مشتِ خاک: مٹی کی مٹھی ۔ مراد محدود شے ۔ فیض پریشانی: بکھرنے کے طفیل
مطلب: میں ایک ایسی مشت خاک کی مانند ہوں کہ منتشر ہو جاؤں تو صحرا بن جاؤں اور جہاں تک میری وسعت کا سوال ہے تو یوں سمجھ لو کہ زمین سے آسمان تک احاطہ کیے ہوئے ہوں ۔

 
جرس ہوں ، نالہَ خوابیدہ ہے میرے ہر رگ و پے میں 
یہ خاموشی مری وقتِ رحیلِ کارواں تک ہے 

معانی: جرس: گھنٹی ۔ نالہ: سور، فریاد ۔ خوابیدہ: سویا ہوا ۔ ہر رگ و پے میں : نس نس، رویں رویں میں ۔ رحیل کارواں : قافلے کا روانہ ہونا ۔
مطلب: میں قافلے کی ایک ایسی گھنٹی کے مانند ہوں جس کی نس نس میں ایک خاموش فریاد چھپی ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ ابھی میرا قافلہ منتشر اور افتراق کا شکار ہے تو مجھے بھی خامشی اختیار کرنا پڑ رہی ہے ۔ جوں ہی میرا قافلہ منظم ہو کر اپنی منزل کی جانب گامزن ہوا میں بھی متحرک ہو جاؤں گا ۔

 
سکونِ دل سے سامانِ کشودِ کار پیدا کر 
کہ عقدہ خاطرِ گرداب کا آبِ رواں تک ہے 

معانی: سمان پیدا کرنا: چارہ ڈھونڈنا، بندوبست کرنا ۔ کشودِ کار: مشکل کا حل ۔ عقدہ: گرہ ۔ خاطر گرداب: بھنور کا دل ۔ آبِ رواں : بہتا ہوا پانی ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں اہل قافلہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اگر تم مسائل سے عہد ہ برآ ہو کر اپنے لیے سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرنے کے خواہاں ہو تو اس امر کی ضرورت ہے کہ اطمینان قلب حاصل کر لو کہ پانی میں گرداب یعنی بھنور اسی وقت تک پڑتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ رواں دواں رہتا ہےاور جوں ہی اس کی روانی ختم ہوئی اور وہ ایک مقام پر ٹھہر گیا تو بھنور پڑنا بھی ختم ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ مشکلات بھی انسانی زندگی میں اس وقت تک برقرار رہتی ہیں جب تک وہ منتشر ہو لہذا سکون قلب کے حصول کی خاطر یہ امر ناگزیر ہے کہ انتشار اور افتراق کا خاتمہ کیا جائے ۔

 
چمن زار محبت میں خموشی موت ہے بلبل 
یہاں کی زندگی پابندی رسمِ فغان تک ہے 

چمن زار: جہان کئی چمن ہوں ، مراد باغ ۔ پابندیِ رسمِ فغاں : فریاد کی رسم کو باقاعدگی سے نبھانا ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ عشق و محبت میں خموشی موت کے مترادف ہے اس کو زندہ رکھنا ہے تو پھر نالہ و فریاد بھی ناگزیر ہے کہ یہی عشق و محبت کی بنیادی رسم ہے ۔

 
جوانی ہے تو ذوقِ دید بھی لطفِ تمنا بھی 
ہمارے گھر کی آبادی قیامِ مہماں تک ہے 

معانی:ذوقِ دید: دیدارِ محبوب کا شوق ۔ لطف تمنا: خواہش کا مزہ ۔ قیام: ٹھہرنا ۔
مطلب: انسان جب تک عالم شباب کا حامل ہوتا ہے تو محبوب کے دیکھنے کا لطف اور اس کے حصول کی تمنا بھی برقرار رہتی ہے اور جب شباب ہی رخصت ہو جائے تو اس نوع کے جذبے فطری طور پر دم توڑ دیتے ہیں ۔

 
زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی 
سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے رازداں تک ہے 

معانی: اے وائے: افسوس ہے ۔ رازداں : واقفِ حال ۔
مطلب: غزل کے اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میں دنیا بھر میں بدنام اور رسوا ہو چکا ہوں تا ہم یہ احمقانہ سوچ میرے ذہن پر حاوی ہے کہ میری عشق کی داستان محض میرے رازداں کے سوا اور کسی کو بھی معلوم نہیں جب کہ اس کا انکشاف سارے زمانے پر ہو چکا ہے ۔