Please wait..

ایجادِ معانی

 
ہر چند کہ ایجادِ معانی ہے خداداد
کوشش سے کہاں مردِ ہنر مند ہے آزاد

معانی: ایجادِ معانی: نئے معنی پیدا کرنا ۔ خداداد: خدا کا دیا ہوا ۔
مطلب: اگرچہ کسی لفظ یا چیز کے نئے معانی پیدا کرنا یا کوئی نیا فن پیدا کرنے کی صلاحیت کا ہونا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اہلیت کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ہنرمند اور فن کار شخص کوشش سے اس صلاحیت اور اہلیت کو مزید اجاگر کرتا ہے اور نئے نئے اسلوب اور معنی پیدا کرتا ہے ۔ وہ لکیر کا فقیر نہیں بنتا بلکہ ہر فن پارے میں اپنی کوشش سے نیا رنگ بھرتا ہے ۔

 
خونِ رگِ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
میخانہَ حافظ ہو کہ بتخانہَ بہزاد

معانی: خون رگ معمار: راج کے رگوں کا خون ۔ میخانہ حافظ: حافظ شیرازی جو کہ ایران کا ایک مشہور شاعر ہے کی شاعری کا مے خانہ ۔ بت خانہ بہزاد: بہزاد اسکی تصویروں کا بت خانہ یعنی مصوری ۔
مطلب: خواجہ حافظ شیرازی نے اگر اپنی خمریاتی شاعری سے مے خانہ سجایا ہے اور اپنے مضامین و معانی کو شراب، جام، سبو ، مے مغ وغیرہ کے علامات سے تعبیر کیا ہے یا بہزاد نے اپنی تصویر وں سے بت خانہ سجایا ہے یعنی اعلیٰ مصوری کی ہے تو یہ محض اس لیے ممکن ہو سکا ہے کہ ان معماروں کی رگوں میں گرم خون دوڑتا ہے ۔ یعنی عشق اور اخلاص کی گرمی کے وہ حامل تھے اگر ایسا نہ ہوتا اور ان کی رگیں عشق اور اخلاص کی حرارت سے خالی ہوتیں اور وہ عظیم مے خانہ حافظ اور بت خانہ بہزاد جو آج ہم دیکھتے ہیں کبھی تعمیر نہ ہوتا ۔ مراد یہ ہے کہ فن میں نئے معانی، نئی چیز مستقل قدروقیمت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فن کار کے دل میں عشق کا جو ش اور اخلاص کا ہوش موجود ہو ۔

 
بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شررِ تیشہ سے ہے خانہَ فرہاد

معانی: بے محنت پیہم: بغیر لگاتار جدوجہد کے ۔ جوہر نہیں کھلتا: اصلیت ظاہر نہیں ہوتی ۔ شرر تیشہ: تیشہ کی چنگاری ۔ خانہ فرہاد: فرہاد کا گھر، فرہاد ایران کا ایک شخص تھا جو شیریں نامی ایک حسینہ پر عاشق تھا، تیشہ: شیریں کو حاصل کرنے کے لیے فرہاد کا تیشہ جو اس نے پہاڑ کھونے کے لیے بنایا تھا ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے خسرو پرویز ، فرہاد اور شیریں کے قصے کو پس منظر میں رکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ جس طرح فرہاد نے شیریں کو حاصل کرنے کے لیے خسرو پرویز کے فریب میں آ کر تیشے سے پہاڑ کو چیر کر دودھ کی نہر نکالنے کی ٹھان لی تھی اسی طرح بغیر مسلسل محنت کے اور بغیر بڑی سے بڑی مہم سر کرنے کے ارادے کے کسی بھی فن کار کی اصلیت ظاہر نہیں ہو سکتی ۔ جس طرح فرہاد کا گھر اس کے پتھروں پر تیشہ چلانے کی بنا پر نکلتی ہوئی چنگاریوں سے روشن ہوا ہے اور اس کی شہرت بطور کوہ کن آج تک موجود ہے اسی طرح وہ فن کار جو مسلسل محنت کر کے تیشہ فرہاد کی طرح چنگاریاں پیدا کرتا ہے اس کا فن اعلیٰ فن ہوتا ہے ۔