فوارہ
یہ آبجو کی روانی، یہ ہم کناریِ خاک مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ
معانی: آبجو: ندی ۔ روانی: بہاوَ ۔ ہمکناری خاک: مٹی کے ساتھ رہنا ۔ ناخوب ہے: اچھا نہیں ہے ۔
مطلب: اس نظم میں شاعر نے آدمی کی اندرونی قوت کا ذکر ندی اور فوارہ کی علامتوں سے سمجھایا ہے ۔ ندی میدان میں بہتی رہتی ہے جب کہ فوارہ کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر کے زور سے پانی کو اوپر اچھالتا ہے ۔ اسی بات کو اس نظم کے دونوں شعروں میں بیان کیا ہے ۔ اس شعر میں کہا گیا ہے کہ ندی کو دیکھو وہ بہتی ضرور ہے لیکن مٹی کے کناروں میں بہتی چلی جاتی ہے ۔ اور مٹی سے بلند اٹھنا اس کے نصیب میں نہیں ہے ۔ اس بنا پر ندی کا یہ نظارہ میری نگاہ میں اچھا نہیں ہےِ
اُدھر نہ دیکھ، اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز بلند زورِ دروں سے ہوا ہے فوارہ
معانی: زور دروں : اندر کا زور ۔ جوان عزیز: قسمتی یا پیارے نوجوان ۔
مطلب: اس شعر میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ اے میرے پیارے جوانوں تم ندی اور اس کے بہاوَ کو نہ دیکھو اورا س کے نظارے کو دیکھ کر خوش نہ ہو بلکہ دوسری طرف فوارے کو دیکھو کہ اس کے اندر ایسا زور ہے کہ وہ اس روز سے پانی کو اوپر کی طرف اچھالتا ہے اور مٹی سے کہیں اوپر لے جاتا ہے ۔ اس سے تمہیں بھی سبق سیکھنا چاہیے کہ اصل چیز تمہارے اندر کی طاقت ہے جس کو پیدا کر کے تم بھی مٹی سے بلند ہو سکتے ہو اور غلامی سے نکل کر آزادی کی سانس لے سکتے ہو ۔