Please wait..

عہدِ طفلی

 
تھے دیارِ نَو زمین و آسماں میرے لیے
وسعتِ آغوشِ مادر اک جہاں میرے لیے

معانی: عہدِ طفلی: بچپن کا زمانہ ۔ دیارِ نو: نئے نئے ملک، شہر ۔ مادر: ماں ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اپنے ایام طفلی میں زمین اور آسمان تو میرے لیے قطعی اجنبی حیثیت کے حامل تھے ۔ میری حقیقی پناہ گاہ تو ماں کی آغوش تھی جو فی الواقع ایک وسیع کائنات کے مانند محسوس ہوتی تھی ۔

 
تھی ہر اک جنبش نشانِ لطفِ جاں میرے لیے
حرفِ بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے

معانی: جنبش: ہلنے کی حالت ۔ لطفِ جاں : روح کے لیے مزے کی بات ۔
مطلب: ہر متحرک شے میرے نزدیک دلچسپی کا باعث ہوتی تھی ۔ حد تو یہ ہے کہ میری زبان سے بھی جو صدائیں برآمد ہوتی تھی ان کا مفہوم میں خود بھی نہ سمجھ سکتا تھا ۔

 
درد، طفلی میں اگر کوئی رُلاتا تھا مجھے
شورشِ زنجیرِ در میں لُطف آتا تھا مجھے

معانی: شورش: شور ۔ زنجیر در: دروازے کی کنڈی ۔
مطلب: اگر کسی تکلیف کے سبب رونے لگتا تو دروازے کی زنجیر کے کھٹکھٹانے سے ہی بہل جاتا تھا ۔

 
تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سُوئے قمر
وہ پھٹے بادل میں بے آوازِ پا اس کا سفر

معانی: پہروں تلک: بڑی دیر تک ۔ سوئے قمر: چاند کی طرف ۔ پھٹا بادل: ٹکڑیوں میں بٹا ہوا بادل کہ کہیں ہو اور کہیں نہ ہو ۔ آوازِ پا: پاؤں کی چاپ ۔
مطلب: رات آتی تھی تو میں آنکھ جھپکے بغیر آسمان پر روشن چاند کو تکتا رہتا تھا ۔ چاند جو بادلوں کے ٹکڑوں کے پیچھے بڑی خاموشی اور سکون کے ساتھ اپنا سفر طے کر رہا ہوتا تھا ۔

 
پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر
اور وہ حیرت دروغِ مصلحت آمیز پر

معانی: رہ رہ کے: گھڑی گھڑی، بار بار ۔ کوہ: پہاڑ ۔ دروغِ مصلحت آمیز: ایسا جھوٹ جس میں کوئی بھلائی ہو ۔
مطلب: اپنے عزیز و اقارب سے جب میں چاند کے بارے میں سوالات کرتا تو اپنی لا علمی کے سبب وہ مجھے اس کے بارے میں ایسی باتیں بتایا کرتے تھے اب جن کے بارے میں سوچ کر ہنسی آتی ہے ۔

 
آنکھ وقفِ دید تھی، لب مائلِ گفتار تھا
دل نہ تھا میرا، سراپا ذوقِ استفسار تھا

معانی: وقفِ دید: دیکھنے میں مصروف ۔ لب: ہونٹ ۔ مائلِ گفتار: بولنے پر تیار ۔ ذوقِ استفسار : سوال کرتے رہنے کا لطف ۔
مطلب: ان دنوں آنکھ ہمیشہ کچھ دیکھنے میں مصروف رہتی تھی اور ہر شے کو تکتا رہتا جبکہ میرے لب ہر وقت بولنے کو تیار رہتے ۔ میں اپنے دل میں ہی سوال کرتا رہتا تھا ۔