رباعی (1)
رہ و رسم حرم نامحرمانہ کلیسا کی ادا سوداگرانہ
تبرک ہے مرا پیراہنِ چاک نہیں اہلِ جنوں کا یہ زمانہ
معانی: حرم: کعبہ یعنی مسجدیں وغیرہ ۔ کلیسا: گرجا ۔ سوداگرانہ: تجارت کرنے والا ۔ پیراہن: لباس ۔ اہل جنوں : اربابِ عشق ۔ چاک: کھلا ہوا ۔
مطلب: اس رباعی میں اقبال نے مذہبی اداروں کے منفی کردار کا جائزہ لیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ہر چند یہ عہد اہل جنوں کے لیے سازگار نہیں پھر بھی میری فکر اور نقطہ نظر کو پیش نظر رکھا جائے تو آج کا انسان اس سے کچھ استفادہ کر سکتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ حرم اور کلیسا (مسلمانوں اور عیسائیوں ) میں جو لوگ برسر اقتدار اور مسلط ہیں وہ قطعی طور پر اس کے اہل نہیں ۔
رباعی (2)
ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا تڑپ جا پیچ کھا کھا کر بدل جا
نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا
معانی: ظلام: اندھیرا ۔ بحر: سمندر ۔
مطلب:انسانی زندگی تو ایک بحر بے کنار کے مانند ہے جس میں ایسے پیچیدہ مسائل موجود ہیں جن سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ اس کے باوجود اگر قسمت یاوری نہ کرے تو خود کو اس مخمصے سے علیحدہ کر لے ۔ مراد یہ ہے کہ زندگی بے شک انتہائی کٹھن اور مشکل معاملات سے دوچار ہے اس کے باوجود جو ان ہمت لوگوں کی ذمے داری یہ ہے کہ اس پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے راہ خود ہموار کریں اور پھر بھی ناکامی کا خدشہ ہو تو راہ بدل لیں ۔ اور کوئی مناسب طرز عمل اختیار کریں ۔
رباعی (3)
مکانی ہوں کہ آزادِ مکاں ہوں جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں
معانی: مکانی: دنیا ۔ آزادِ مکاں
مطلب: مجھے ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوا کہ اس جہان ارضی میں میری اپنی حقیقت کیا ہے ۔ قدرت نے کچھ وسائل ضرور فراہم کیے اس کے باوجود خود کو بے وسیلہ محسوس کر رہا ہوں اور یہ پتہ نہیں چل رہا کہ میں جس معاشرے میں زندگی گزار رہا ہوں اس کے حدود کیا ہیں ۔ یہ حدود ہیں بھی یا نہیں ہیں ۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ یکہ و تنہا ایک ویرانے میں کھڑا ہوں او رکبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات میں ہی تو ہوں ۔ زندگی کا یہ تضاد میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ بے شک رب ذوالجلال کی لامکانی مسلّمہ ہے لیکن مجھے کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ میرا اپنا مقام اور حدود اربعہ کیا ہے
رباعی (4)
خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں
نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوہَ دوست قیامت میں تماشا بن گیا میں
معانی: خلوت: تنہائی، علیحدگی ۔ جلوہَ دوست: محبوب حقیقی کا دیدار ۔
مطلب: اس رباعی میں اقبال نے اپنی ذات کے حوالے سے ایک تصوراتی منظر نامہ پیش کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ روز قیامت جب میدان حشر میں سب لوگ جمع تھے اور خالق حقیقی کا جلوہ دیکھنے میں مگن تھے تو میں اس وقت بھی اپنی خودی میں مگن تھا اور اس مرحلے پر بھی خالق حقیقی کا جلوہ دیکھنے سے بے نیاز رہا جس کے نتیجے میں وہاں موجود لوگوں کے درمیان تماشا بن کر رہ گیا ۔
رباعی (5)
پریشاں کاروبار آشنائی پریشاں تر مری رنگیں نوائی
کبھی میں ڈھونڈتا ہوں لذت وصل خوش آتا ہے کبھی سوز جدائی
معانی: پریشاں : بکھرے ہوئے ۔ آشنائی: دوستی ۔ رنگیں نوائی: خوبصورت باتیں بھی زیادہ پریشاں ہیں ۔ وصل: ملاپ ۔
مطلب: یہاں اقبال نے عاشقی کے حوالے سے اپنی ذاتی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عشق کے عمل میں انسان بے شک اضطراب و انتشار کا شکار تو ہمیشہ رہتا ہے ۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میری نغمہ سرائی کا عمل بھی انتہائی اضطراب و انتشار کے مراحل سے گزر رہا ہے ۔ اس اضطراب و انتشار کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ کسی مرحلے پر تو مجھے لذت وصل کی طلب ہوتی ہے اور کبھی محبوب کے ہجر سے پیدا ہونے والی کیفیت اپنی تمام تر شورش کے باوجود دل پسند محسوس ہوتی ہے ۔