(۳)
عجب واعظ کی دیں داری ہے یارب عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
معانی: عجب: حیران کرنے والی ۔ واعظ: مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر وعظ کرنے والا ۔ دیں داری: دین، شریعت کی پابندی ۔ عداوت: دشمنی ۔
مطلب: واعظ جو بزعم خود نیکی و پارسائی اور اخوت و مساوات کا دعویدار بنتا ہے جب کہ اس کا ذاتی کردار قطعی مختلف ہے ۔ اس کے قول و فعل میں تضادات کا یہ عالم ہے کہ ہر نوع کی دینداری کے دعووں کے باوجود عملاً اسے اپنے سوا سارے جہان کے لوگوں سے عداوت ہے بالفاظ دگر اس کے دل میں نفرت کے سوا اور کچھ نہیں َ
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے
مطلب: آج کی دنیا میں بے شک عقلی اور ذہنی سطح پر انسان بے حد ترقی کر چکا ہے ۔ بڑے بڑے سائنسدانوں اور موجدوں نے حیرت انگیز انکشافات اور ایجادات کی ہیں تاہم اب تک اس حقیقت کو کوئی بھی نہیں جان سکا کہ یہ جو انسان دنیا میں آتا ہے کہاں سے آتا ہے ۔ یعنی تمام تر ذہنی اور شعوری ارتقاء کے باوجود انسان کی حقیقت ابھی تک پوشیدہ ہے ۔
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
معانی: ظلمت: اندھیرا ۔
مطلب: یہ نظام قدرت ہے کہ شب کی سیاہی بھی اسی قوت کی ودیعت کردہ ہے جس نے ستاروں کو روشنی عطا کی ہے یعنی یہ رب ذوالجلال کے احکامات کا کرشمہ ہے کہ تاروں کو روشنی بھی انہی کے تحت ملتی ہے اور رات کو تاریکی بھی وہیں سے فراہم ہوتی ہے ۔
ہم اپنی درد مندی کا فسانہ سنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے
معانی: دردمندی: تکلیف، دکھ کی حالت ۔ فسانہ: کہانی ۔ رازداروں : واقف حال ۔
مطلب: ہم اس قدر درد مند واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے رازدار لوگ ہی اس ہمدردانہ رویے کا احوال بیان کرتے ہیں جو ہمارا دوسروں کے ساتھ رہا ہے جب کہ ہم اسے فراموش کر چکے ہوتے ہیں ۔
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے
معانی: باریک: گہری ۔ چالیں : جمع چال، دھوکا دینے کے طریقے ۔ لرز جانا: کانپ اٹھنا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال واعظ پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس قدر چالاک و عیار شخص ہے کہ اذان کی آواز سنتے ہی کانپنے لگ جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ عمل محض دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے ہوتا ہے ۔