Please wait..

تنہائی

 
تنہائی شب میں ہے حزیں کیا
انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا

معانی: حزیں : غمگین ۔ انجم: جمع نجم، ستارے ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال یوں گویا ہوتے ہیں ۔ اے انسان! شب کی اس تنہائی میں تو خود کو کیوں ملول و افسردہ محسوس کرر ہا ہے ۔ تو نظر اٹھا کر دیکھتا نہیں کہ ستارے بھی تیرے ہم نشیں ہیں ۔

 
یہ رفعتِ آسمانِ خاموش
خوابیدہ ز میں ، جہانِ خاموش

معانی: رفعت: بلندی ۔ خوابیدہ: سوئی ہوئی ۔
مطلب: تو ذرا غور کرے تو یہ حقیقت تجھ پر واضح ہو جائے گی کہ اتنابلند ہونے کے باوجود آسمان بھی خاموش اور پرسکوت ہے اور یہ زمین تو اس طرح سے خاموش ہے جیسے سوئی ہوئی ہے ۔

 
یہ چاند، یہ دشت و در یہ کہسار
فطرت ہے تمام نسترن زار

معانی: دشت و در: جنگل اور بیابان ۔ نسترن زار: جہاں سیوتی کے سفید پھول ہوں ۔
مطلب: اے انسان! ان مظاہر فطرت پر نظر ڈال کہ ان میں چاند، صحرا اور پہاڑ سب کچھ شامل ہیں ان کے باعث یہ کائنات پھولوں سے مزین ہے اور گلستان بنی ہوئی ہے ۔

 
موتی خوشرنگ، پیارے پیارے
یعنی ترے آنسووَں کے تارے

معانی: خوش رنگ: اچھے رنگوں والے ۔
مطلب: اس سے بھی زیادہ یہ جو خوش رنگ ، خوبصورت اور پیارے پیارے موتی ہیں وہ تیرے آنسووَں کی مانند ہیں ۔

 
کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل
قدرت تری ہم نفس ہے اے دل

مطلب: اے انسان! یہ تو بتا کہ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھلا تجھے اور کس شے کی تمنا اور ہوس ہے ۔ جب کہ ساری فطرت اور تمام مناظر فطرت تیرے جذبات سے ہم آہنگ ہو کر تیرے رفیق بن چکے ہیں ۔