Please wait..

فرمانِ خدا
(فرشتوں سے)

 
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو

معانی: کاخ: محلات ۔
مطلب: اس نظم میں اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے نام اپنا فرمان جاری کرتے ہوئے انہیں حکم دیتا ہے کہ اے فرشتو اٹھو! دنیا میں محنت کشوں اور دوسرے بے سروسامان لوگوں کے ساتھ اہل ثروت اور صاحبان اقتدار جو بدسلوکی کر رہے ہیں اس کے تدارک کے لیے اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ میری دنیا کے غریبوں میں بیداری کی لہر پیدا کر دو اور طبقہ امراء کے بلند و بالا محلات کے درودیوار ہلا کر رکھ دو کہ اس کے بغیر انصاف ممکن نہیں !

 
گرماوَ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

معانی: کنجشک فرومایہ: کمزور چڑیا ۔ شاہیں : باز ۔
مطلب: اس مقصد کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ جو لوگ بوجوہ دوسروں کے محکوم اور دست نگر ہیں ان کی غیرت کو اس طرح بیدار کر دو کہ ان کا لہو جوش میں آ جائے اس کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ ان میں یقین و اعتماد پیدا کر دیا جائے اسی صورت میں یہ بے بس و ناچار لوگ ان سرمایہ داروں اور استعمار پرستوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو ان پر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں ۔

 
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

معانی: یہ بھی جان لو کہ اب حالات میں بڑی تیزی کے ساتھ ردوبدل ہو رہا ہے ۔ بادشاہتیں اور سرمایہ دارانہ نظام ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ان کے بدلے اب عوام کے اقتدار کا دور نزدیک آ رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اب انہیں کے ہاتھ میں کل اختیارات ہوں گے اس لیے تم پر لازم ہے کہ ماضی کے جو بھی نقوش تمہیں نظر آئیں ان کو مٹا ڈالو تا کہ اس کے بعد ایک نئی دنیا نئے نظام کے ساتھ آباد کی جا سکے ۔

 
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہَ گندم کو جلا دو

معانی: خوشہَ گندم: گندم کا دانے والا گچھا ۔
مطلب: اے فرشتو! اس امر کو بھی پیش نظر رکھو کہ کسانوں کو جس کھیت سے اس کی تمام تر محنت مشقت کے باوجود روزی اور معاوضہ میسر نہ ہو اور اس کی تمام پیداوار زمیندار ہڑپ کر جاتا ہو اس کے اقدام سے قبل ہی اس کھیتی کی ایک ایک خوشہ گندم کو جلا کر راکھ کر دو کہ اگر محنت کش کسان کو پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کے لیے یہاں سے معاوضہ نہیں ملتا تو پھر زمیندار کو بھی لوٹ کھسوٹ کا حق حاصل نہیں ۔

 
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

مطلب: سوال یہ ہے کہ میرے اور میری مخلوق کے درمیان پادریوں اور دوسرے مذہبی پیشواؤں نے جو بے جواز پردے حائل کر دیے ہیں اس کا تدارک اسی طرح سے ممکن ہے کہ ان پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کو ان عبادت گاہوں سے اٹھا کر باہر پھینک دو اور وہاں ان کی اجارہ داری کا خاتمہ کر دو ۔ مراد یہ ہے کہ مذہبی پیشواؤں نے عوام میں جو اپنی دکانداری چمکا رکھی ہے کہ ان کے توسط کے بغیر مجھ تک ان کی رسائی نہیں ہو سکتی اس تاثر کو ختم کرنا ضروری ہے ۔

 
حق را بسجودے، صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو

معانی:حق را بسجود ے صنماں راب بطوافے: وہ لوگ جو خدا کو ایک سجدے اور بتوں کو ایک طواف سے راضی کرتے ہیں ۔ حرم: مسجد ۔ دیر: مندر ۔
مطلب: میں دیکھ رہا ہوں کہ مسجدوں اور بت خانوں کی صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ دکھاوے کے لیے مسجد میں گئے اور نمائشی سجدے کر لیے یہی حال ان لوگوں کا ہے جو بت پرست ہیں کہ کبھی کبھار بتوں کی پرستش کر لی اور بس ۔ یہ سب لوگ ہی مذہب اور عقیدے کو ایک کھیل سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھتے ۔ چنانچہ اس صورت حال سے یہ کہیں زیادہ بہتر ہے کہ مساجد اور بت کدوں کو ختم کر کے رکھ دو کہ ان اداروں میں بے راہ روی کے باعث لوگ اپنے مذہب اور عقیدوں سے بیزار ہو کر رہ گئے ہیں ۔

 
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

معانی : مرمر کی سلوں : سنگ مرمر کی سیلیں ، چٹانیں ۔ مٹی کا حرم: مٹی کا عبادت خانہ ۔
مطلب: اے فرشتو! یاد رکھو کی عبادت گاہوں میں جو قیمتی پتھر آویزاں کیے گئے ہیں اورقیمتی اشیاء سے ان کی تزئین کی گئی ہے میں ان سے شدید طور پر بیزار اور ناخوش ہوں ۔ ان سے بہتر یہ ہے کہ میری عبادت کے لیے تو سادہ سا مٹی کا حرم تعمیر کر دو ۔ مرا د یہ ہے کہ عبادت گاہوں کی آرائش و تزئین تو بے معنی شے ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے لوگوں میں عشق حقیقی کی لگن پیدا کی جائے ۔ تصنع اور ظاہر داری تو خلوص و وفا کی ازلی دشمن ہیں ۔

 
تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو

معانی: تہذیب نوی: نئی تہذیب ۔ کارگہِ شیشہ گراں : شیشوں کا کارخانہ ۔ شاعرِ مشرق: مشرقی ملکوں کے شاعر ۔
مطلب: اے فرشتو! یہ بھی سن لو کہ جدید تہذیب جو اس وقت پورے انسانی معاشرہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے شیشہ سازوں کے کارخانوں کی مانند ہے جہاں ہر طرف شیشے آویزاں ہوتے ہیں لیکن کسی شے کی معمولی ضرب سے ہی چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔ ایسی ناپائیدار تہذیب کو ختم کرنا ضروری ہے کہ جس میں عدم مساوات اور اقتصادی ناہمواریاں عام ہیں ۔ اس کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ شاعر مشرق کو آداب جنوں سکھا دو کہ وہ اپنے تخلیقی فن کے ذریعے عوام کو مروجہ تہذیب کی بے اعتدالیوں اور خرابیوں سے آگاہ کر سکے کہ یہی طریق کار اس تہذیب کو ختم کرنے کے لیے ناگزیر ہے ۔ اور جب تک یہ تہذیب ختم نہ ہو گی اور نیا نظام اس کی جگہ نہ لے گا عالمی سطح پر امن قائم نہیں ہو سکتا اور نا ہی لوگوں کو مسرت و خوشحالی حاصل ہو سکتی ہے ۔