Please wait..

رباعیات

(1)

 
مری شاخِ اَمل کا ہے ثمر کیا
تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا

معانی: امل: آرزو، امید ۔ تقدیر: قسمت ۔
مطلب : علامہ نے یہاں ایک اصول بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ اس لیے انسان کو صرف آج کے حالات کو پیش نظر رکھ کر عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ اس بات کو علامتی انداز میں بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میری آرزو اور امید کے درخت کی شاخ پر پھل لگے گا بھی یا نہیں لگے گا اور اگر لگے گا تو کیسا لگے گا مجھے علم نہیں اسی طرح اے مخاطب تیری قسمت میں آگے چل کر کیا ہونے والا ہے اس کی بھی مجھے خبر نہیں ۔

 
کلی گل کی ہے محتاج کشود آج
نسیم صبحِ فردا پر نظر کیا

معانی: محتاج کشود: کھلنے کی محتاج ۔ نسیم صبح فردا: آنے والی کل کی صبح کی نرم و لطیف ہوا ۔ ثمر: پھل ۔ خبر کیا: کیا معلوم ۔
مطلب: پھول کی کلی یا غنچہ تو آج کھلنے کا محتاج ہے اسے تو آج نسیم کا جھونکا چاہیے جو اسے کھلا کر پھول بنا دے ۔ اس کی نظر آنے والے کل کی صبح پر نہیں ہے ۔ اگر آج اسے نسیم کا جھونکا میسر نہ آیا تو وہ شاخ پر مرجھا جائے گا ۔ اس میں مسلمان کو تقدیر پر بھروسہ کرنے اور آنے والی کل کی امید پر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنے سے روکا ہے ۔

(۲)

 
فراغت دے اسے کارِ جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے

معانی: فراغت: فرصت ۔ کار جہاں : دنیا کا کام ۔ ہر نفس: ہر لمحہ ۔
مطلب: اس رباعی میں علامہ نے شاعرانہ شوخی سے کام لیتے ہوئے خدا سے کہا ہے کہ شیطان جسے تو نے ہزاروں سال پہلے پیدا کیا تھا آج تک ہر لمحہ اسی فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ان کو تجھ سے دور رکھ سے ۔

 
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش
گناہِ تازہ تر لائے کہاں سے

معانی: پیری: بڑھاپا ۔ کہنہ اندیش: پرانی سوچ والا ۔ تازہ تر: پہلے سے نئی، زیادہ تازہ ۔
مطلب: اگرچہ بوڑھا ہو گیا ہے لیکن ابھی تک اسی پرانی سوچ میں مبتلا ہے اس کے اندر نئی سوچ نہیں آ سکتی ۔ بہتر ہے کہ اب اسے لوگوں کو بہکانے کے اس کام سے فارغ کر دے ۔ تاکہ وہ ہر لمحہ کی آزمائش سے چھٹکارا پا لے ۔ عہد حاضر کا آدمی تو خود سراپا شیطان بن چکا ہے اب کوئی نئی سوچ والا شیطان پیدا کر جو اسے شیطنت کا نیا کاروبار سکھا سکے ۔ مقصود اس رباعی کے مضمون سے یہی بتانا ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت نے آدمی میں ہر وہ برائی پیدا کر دی ہے جو شیطان اس میں پیدا کر سکتا ہے اس لیے اب اس پرانے شیطان کی ضرورت نہیں رہی ۔

(۳)

 
دِگرگوں عالمِ شام و سحر کر
جہانِ خشک و تر زیر و زبر کر

معانی: دگر گوں : بدل دینا ۔ عالم شام و سحر: صبح اور شام کا جہان مراد دنیا ۔ جہان خشک و تر: خشکی اور تری کا جہان ۔ زیر و زبر: الٹ پلٹ ۔
مطلب: خدا سے دعا کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ یہ جہان جس میں کافرانہ ، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ماحول پیدا ہو چکا ہے اس قابل ہے کہ اسے تباہ و برباد کر دیا جائے ۔ اے خدا تو اس جہان کو بدل دے ور اس کی جگہ ایک نیا جہان پیدا کر جو شیطانی اثرات سے پاک ہو ۔ زمین پر خشکی اور تری ہر جگہ تجھ سے بیزاری کی وجہ سے فساد پیدا ہو چکا ہے اور آدمی اپنے اس مقصد کو جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا بھول گیا ہے اس لیے اس جہان کو زیر و زبر (الٹ پلٹ) کر دے ۔

 
رہے تیری خدائی داغ سے پاک
مرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر

معانی: خدائی: خدا ہونا ۔ داغ سے پاک رہے: الزام سے پاک ۔ بے ذوق سجدے: بے کیف سجدے ۔ حذر کر : بچ ، پرہیز کر ۔
مطلب : ایک ایسا جہان پھر سے پیدا کر جس میں تیری حکمرانی ہو اور جس میں آدمی اپنی تخلیق کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی بسر کر رہا ہو ۔ اے خدا اس دور میں مسلمان جس کے پاس تیرا آخری پیغام ہے اور جس کی ذمہ داری لوگوں کو ظلمت سے نکال کر نور میں لانا ہے خود ظلمت میں بھٹک رہا ہے ۔ آج کا مسلمان تیری عبادت کرتا، تیری نماز پڑھتا اور تجھے سجدے کرتا ہوا تو ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے سجدوں میں وہ سوز، وہ کیف اور سرور وہ مستی اور وہ خلوص نہیں ہے جس کی بنا پر وہ غیر اللہ کے سامنے جھکنے سے پرہیز کرتا تھا ۔

(۴)

 
غریبی میں ہوں محسودِ امیری
کہ غیرت مند ہے میری فقیری

معانی: محسود امیری: جس پر امیری حسد کرے ۔ غیرت مند: عزت دار، خوددار ۔
مطلب: فقیری اور درویشی دو قسم کی ہے ایک وہ جو آدمی کو بھکاری اور گدا بنا کر دوسرے کے آگے دست سوال دراز کرنے پر مجبور کرتی ہے اور دوسروں کو محتاج بنا دیتی ہے اور دوسری وہ جس میں وہ فقیر کو ہر در سے بے نیاز بنا کر صرف اللہ کے در پر رکھتی ہے ۔ ایسا فقر چونکہ صرف اللہ کے در کا مانگت ہوتا ہے اس لیے بادشاہ، امیر، منعم اور دوسرے سب اس کی چوکھٹ کے مانگت ہوتے ہیں ۔

 
حذر اس فقر و درویشی سے جس نے
مسلماں کو سکھا دی سربزیری

معانی: سربزیری: کسی کے آگے جھکنا ۔
مطلب: علامہ اس دوسری قسم کی فقیری کا ذکر کرتے ہویے اس رباعی میں کہتے ہیں اگرچہ میرے پاس دولت دنیاوی نہیں ہے لیکن اس حالت غریبی میں بھی میری یہ شان ہے کہ دولت والے مجھ سے حسد کرتے ہیں انہیں اپنی امیری سے زیادہ میری فقیری بہتر معلوم ہوتی ہے ۔ اپنے فقر کی مثال دینے کے بعد علامہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم اس فقر اور دوریشی سے بچو جس نے تم کو دوسروں کے آگے جھکنا اور ہاتھ پھیلانا سکھا دیا ہے جس نے تمہاری عزت اور غیرت کو تم سے چھین لیا ہے ۔