Please wait..

میں اور تو

 
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل  کا
میں ہلاکِ جادوئے سامری، تو قتیلِ شیوہَ آزری

معانی: کلیم کا: یعنی حضرت موسیٰ کلیم اللہ جیسا ۔ قرینہ: ڈھنگ، شعور ۔ خلیل: حضرت ابراہیم خلیل اللہ ۔ جادوئے سامری: سامری کا جادو، فریب حضرت موسیٰ کے زمانے میں سامری نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس پر کچھ جادو کیا جس سے وہ بولنے لگا ۔ سامری نے بنی اسرائیل سے یہ کہہ کر اس کی پوجا کروائی کہ یہ خدا ہے ۔ قتیل: مارا ہوا، ہلاک ۔ شیوہ: طریقہ، انداز، عادت ۔ آزری: آزر ہونا، یعی بت تراش مراد فرقوں کے بت ۔
مطلب: اے عصر جدید کے مسلمان! میں دیکھتا ہوں کہ اپنی تمام تو سخنوری کے باوجود مجھ میں حضرت موسیٰ کی کلیمی کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے ۔ اور جہاں تک تیری ذات اور کردار کا تعلق ہے تو بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی کسی ایک سنت سے بھی بہرہ ور نہیں ہے ۔ اس کے برعکس میں کلیم ہونے کے بجائے سامری جیسے ساحر کے زیر اثر آ گیا ہوں اور تو بھی اپنے صحیح راستے سے ہٹ کر آزر کی مانند بت گری اور بت فروشی کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہے ۔

 
میں نوائے سوختہ در گلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو
میں حکایتِ غمِ آرزو، تو حدیثِ ماتمِ دلبری

معانی: نوائے سوختہ در گلو: جس کے گلے میں آواز جل کر رہ گئی ہو ۔ پریدہ رنگ: جس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا ہو ۔ رمیدہ بو: اڑی ہوئی خوشبو والا، دکھو ں والا ۔ حکایتِ غمِ آرزو: تمنا کے غم کی داستان کا بیان ۔ حدیثِ ماتمِ دلبری: محبوب کی جدائی کے دکھ کا بیان ۔
مطلب: میری مثال دیکھا جائے تو اس بلبل کی مانند ہے جس کی آواز اس کے گلے میں تحلیل ہو کر رہ گئی ہے ۔ اور تیری کیفیت اس پھول کی سی ہے جس کا رنگ بھی اڑ چکا ہے اور خوشبو بھی اس کو داغ مفارقت دی گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں خصوصیات کے بغیر پھول ایک مجہول و مفلوج وجود بن کر رہ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں اور تو اپنی آرزووَں کے غم کی حکایت بن چکا ہوں اور تو مجبوریت کے ماتم کا مظہر بن چکا ہے ۔

 
مرا عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفسِ عدم
ترا دل حرم، گروِ عجم، ترا دیں خریدہَ کافری

معانی: مرا عیش غم: میری خوشی بھی غم ہی ہے ۔ مرا شہد سم: میرا شہد زہر کی صورت ہے ۔ مری بود: میرا وجود، میری ہستی ۔ ہم نفسِ عدم: فنا کی ساتھی ۔ حرم: کعبہ، اسلامی تہذیب ۔ گروِ عجم: یعنی غیر اسلامی تہذیب کا شیدائی ۔ خریدہَ کافری: کفر کا خریدا ہوا، جسے کفر نے خرید لیا ہو ۔
مطلب: ان حالات میں عیش و مسرت میرے لیے غم و اندوہ کا رو پ دھار چکے ہیں ۔ میرے لیے اب شہد بھی زہر کی مانند تلخ ہو چکا ہے ۔ اس لمحے میرا وجود، عدم وجود، زندگی اور موت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اسی طرح تیرا دل جو حرم کعبہ کی مانند پاکیزہ تھا اب غیر اسلامی عقائد و تصورات کے پاس رہن رکھا ہوا ہے جب کہ تو نے اپنے دین کو کافرانہ خیالات کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے ۔

 
دمِ زندگی، رم زندگی، غمِ زندگی، سمِ زندگی
غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری

معانی: دمِ زندگی رمِ زندگی: زندگی کا ہر سانس زندگی کی دوڑ، یعنی ختم ہونا ہے ۔ غمِ زندگی سمِ زندگی: زندگی کا دکھ زندگی کے لیے زہر ہے ۔ غمِ رم: زندگی کی دوڑ کا دکھ ۔ شانِ قلندری: بے نیازی کی شان، آبرو ۔
مطلب: زندگی کا ایک ایک سانس جو گزر رہا ہے زندگی کو کم کر رہا ہے اور اس خاتمے کی طرف لے جا رہا ہے ۔ اور یہ ساری صورتحال ہمیں غم زدہ کر رہی ہے یہ غم فی الواقع ایک زہر کی مانند ہے جو آخر کار ہماری زندگیوں کا خاتمہ کر کے رکھ دے گا ۔ ہمیں زندگی کے گزارنے اور اس غم کے زہر کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ قلندروں کی شان یہی تو ہے ۔

 
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری

معانی: شرر: مراد عشقِ حقیقی کی چنگاری ۔ فقر و غنا: غریبی اور امیری ۔ نانِ شعیر: جو کی روٹی ۔ قوتِ حیدری:حضرت علی علیہ السلام کی سی کفر و باطل کو فنا کرنے والی طاقت(آپ فقر کی بنا پر جو کی روٹی کھایا کرتے تھے) ۔
مطلب: اے مسلمان! اگر تیرے وجود میں غیرت اور حمیت کی کوئی چنگاری باقی رہ گئی ہے تو تجھے افلاس و امارت کا خیال ہی نہیں کرنا چاہیے ۔ اس لیے کہ شیرِ خدا حضرت علی علیہ السلام کی تمام تر قوت کا انحصار جو کی روٹی پر تھا ۔ اس کے باوجود انھوں نے خیبر کا در اکھاڑ پھینکا ۔

 
کوئی ایسی طرزِ طواف تو مجھے اے چراغِ حرم بتا
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری

معانی: طواف: کسی چیز کے گرد چکر لگانا ۔ پتنگ: پتنگا، عاشق ۔ سرشتِ سمندری: سمندر کی سی فطرت، چوہے کی قسم کا ایک جانور جو آگ میں رہتا ہے یعنی عشق کی گرمی ۔
مطلب: اے چراغ حرم! میں تیرے گرد طواف تو کر رہا ہوں لیکن کوئی ایسا طریقہ بتا دے کہ تیرے دیوانے اور شیدائی کو مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا کوئی گر حاصل ہو جائے ۔

 
گلہَ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری

معانی: جفائے وفا نما: ایسی سختی جو بظاہر وفا، رفاقت معلوم ہو ۔ حرم: مراد اسلام ۔ اہل حرم: مسلمان ۔ ہری ہری: توبہ ہے توبہ ہے، توبہ توبہ ۔
مطلب: دنیا بھر کے مسلمانوں سے کعبے کو جو شکایت ہے اگر میں اس کا اظہار کسی بت کدے میں کروں تو وہاں رکھے ہوئے بت بھی اظہار ہمدردی کے طور پر توبہ توبہ کرنے لگ جائیں کہ حرم کعبہ جو دین کی عظمت کی علامت ہے ہم نے اس کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے اور مخالف قوتوں کے ہمنوا بن گئے ہیں ۔

 
نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی، نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی فطرتِ اسد اللّٰہی، وہی مرحبی، وہی عنتری

معانی: ستیزہ گاہ: میدانِ جنگ ۔ پنجہ فگن: پنجے میں پنجہ ڈال کر لڑنے والا ۔ اسد اللہی : خدا کے شیر حضرت علی علیہ السلام کی سی ۔ مرحبی: مرحب ایک یہودی پہلوان سے تعلق رکھنے والی یہ جنگ خیبر میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ عنتری: عنتر جیسی ، مرحب کا بھائی ، یہ یہودی پہلوان بھی حضرت علی کے ہاتھوں مذکورہ جنگ میں مارا گیا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں بے شمار انقلابات آئے جنھوں نے بے شمار تہذیبوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا ۔ اس کے باوجود دیکھا جائے تو صورت حال میں کوئی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوئی کہ آج بھی معاشرتی سطح پر ساری دنیا میں حق و باطل کے مابین آویزش جاری ہے ۔ ایک جانب مرحب و عنتر جیسے باطل کو فروغ دینے کی سعی میں مبتلا ہیں دوسری جانب شیر خدا حضرت علی علیہ السلام حق کی حمایت میں تیغ بکف ہیں ۔

 
کرم اے شہِ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغِ سکندری

معانی: شہِ عرب و عجم: عر ب اور عجم کے باشاہ ، حضور اکرمﷺ ۔ گدا: فقیر ۔ دماغِ سکندری: سکندر رومی، جیسا دماغ، مراد فتح مندی کے جذبے
مطلب: اس آخری شعر میں اقبال رسول اللہﷺ سے رجوع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے عرب و عجم کے مالک ہم پر کرم کر ۔ کہ ہم اگرچہ بھکاری ہیں لیکن تیری تعلیمات نے ہمارے مزاج میں سکندر جیسی مملکت پیدا کر دی ہے ۔