Please wait..

علم و عشق

 
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن

معانی: دیوانہ: پاگل ۔ تخمین: اندازہ ۔ ظن: شبہ ۔
مطلب: علامہ شاعرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ مجھ سے علم نے کہا کہ عشق اختیار نہ کرنا یہ تو سراسر دیوانگی ہے ۔ عشق نے یہ بات سن کر مجھ سے کہا کہ علم اختیار نہ کرنا کیونکہ یہ سراسر وہم و گمان ہے ۔ علم بے شک ضروری ہے لیکن حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ بے کار ہے ۔

 
بندہَ تخمین و ظن! کُرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب

معانی: کرم: کیڑا ۔ عشق سراپا حضور: یعنی عشق پوری طرح حاضر ہے ۔ علم سراپا حجاب: علم مکمل طور پر پردے میں ہے ۔
مطلب: اے اقبال تو کتاب کا کیڑا بن کر نہ رہ جانا یعنی صرف علم پڑھنے ہی میں ساری زندگی نہ گزار دینا بلکہ علم کی تکمیل کے بعد عشق کے راستہ پر بھی آنا کیونکہ وہم و گمان کی راہ پر چلنا جو علم کی راہ ہے دانش مندی نہیں ہے ۔ علم کلیتاً حجاب ہے ۔ حقیقت علم پر نہیں کھلتی ۔ اس کے برعکس عشق اختیاری تجھے حضور ذات تک پہنچا دے گی ۔ تمام پردے اٹھ جائیں گے اور حقیقت عیاں ہو جائے گی ۔

 
عشق کی گرمی سے ہے معرکہَ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات

معانی: کائنات: تمام زمین و آسمان ۔ صفات: خوبیاں ۔ تماشائے ذات: ذات الہٰی کی دید ۔
مطلب: عشق مزید کہتا ہے کہ کائنات کا ہنگامہ ، کائنات کی گرمی ، کائنات میں تگ و دو اور کائنات میں عمل و سعی صرف عشق کی وجہ سے ہے ۔ علم اللہ کی صفات کو تو پہچان سکتا ہے لیکن اس کی ذات کا جلوہ نہیں دیکھ سکتا یہ صرف عشق کا کام ہے ۔

 
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب

معانی: سکون و ثبات: امن اور چین ۔ حیات و ممات: زندگی اور موت ۔
مطلب: زندگی اور کائنات میں سکون اور ثبات عشق کی ہی بدولت ہے اور جینے اور مرنے کے انداز صحیح کو صرف عشق ہی بتاتا ہے ۔ موت و حیات کے راز کو علم نہیں عشق کھولتا ہے ۔ علم تو ایک ظاہری سوال کی صورت ہے جس کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ اس ظاہری سوال کا اگر پوشیدہ جواب کسی کے پاس موجود ہے تو وہ صرف عشق ہے ۔ جس بات کو اور جس حقیقت کو علم نہیں سمجھتا عشق اس کو سمجھ بھی لیتا ہے اور پا بھی لیتا ہے ۔ اس لیے علم پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہو عشق اختیار کرو ۔

 
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں 
عشق کے ادنیٰ غلام صاحب تاج و نگیں

معانی: سلطنت: حکومت ۔ فقر: درویشی ۔ دیں : مذہب ۔ تاج و نگیں : تخت اور تاج ۔
مطلب: عشق کے اصل رخ اور اس کے مقام و اہمیت کا اندازہ کرنا ہو تو دین، فقیری اور سلطنت کے ان صحیح رخوں کو دیکھیں جو کسی مرد عشق کی بنا پر سامنے آتے ہیں ۔ یہ سب عشق ہی کے حیران کن اور بعید از عقل رخ ہیں جو عام سلطنت ، دین اور فقر سے الگ ہیں ۔ جو تاج و تخت اور مہر شاہی کے مالک ہیں یعنی بادشاہ تو عشق کے حقیر غلام ہیں ۔ اصل شہنشاہ تو عشق ہے ۔ عشق سب کچھ ہے ساری کائنات پر عشق کی حکمرانی ہے ۔

 
عشق مکان و مکیں ! عشق زمان و زمیں 
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتحِ باب

معانی: فتحِ باب: دروازے کھولنے والا ۔
مطلب: زمین ہو کہ زمانہ ہو مکان کہ اس کا مکین ہو جس کو بھی صحیح رخ پر دیکھو گے عشق ہی کہ بدولت دیکھو گے ۔ علم کی طرح عشق وہم و گمان میں مبتلا نہیں ہے بلکہ عشق سراسر یقین کا حامل ہے اور کسی بھی مشکل کی کنجی یا کسی بھی مہم کے سر کرنے کا دروازہ ہے ۔

 
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام

معانی: عشرتِ منزل: سکون سے گھر رہنا، آرام کرنا ۔ حرام: ناجائز ۔ شورشِ طوفان: طوفان کا شور ۔ حلال: جائز ۔
مطلب: جس طرح دین اسلام کی شرع میں کچھ چیزیں حلال اور کچھ حرام قرار دی گئی ہیں اسی طرح شاعر کے نزدیک عشق کی بھی ایک اپنی شرع ہے ۔ اس شرع کے مطابق طوفانوں سے کھیلنا اور کشمکش زندگی میں لگے رہنا تو حلال ہے لیکن ساحل پر بیٹھ کر سیروتفریح کے مزے لینا یعنی کشمکش زندگی اور خطرات حیات سے مقابلہ نہ کرنا یہ شرع محبت میں حرام ہے ۔

 
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب

معانی: بجلی حلال: یعنی بجلی گرنا ۔ حاصل: نتیجہ یعنی پھل ۔ علم ہے ابن الکتاب: علم کتاب سے جنم لیتا ہے ۔ عشق ہے ام الکتاب: عشق سے کتاب جنم لیتی ہے ۔
مطلب: کھیت سے جو پیداوار حاصل ہوتی ہے اس کو سنبھال کر اور بچا کر رکھنا یعنی کشمکش زندگی سے جو کچھ حاصل ہو اس پر تسلی کر کے بیٹھ رہنا اور مزید تگ و دو نہ کرنا یہ شرع محبت میں حرام ہے ۔ شرع محبت میں تو یہ آیا ہے کہ اس خرمن کو جو اکٹھا کیا ہے بجلی گرا کر جلا دو تا کہ اور خرمن جمع کرنے کا خیال آئے اور تگ و دو زندگی کی ختم نہ ہو ۔ اس شرع میں حاصل کی حفاظت حرام ہے اور اس کو بجلی گرا کر جلا دینا حلال ہے کیونکہ اس کو بچانا مزید تگ و دو سے بچنے کی دلیل ہے اور عشق کو یہ ترک کشمکش پسند نہیں ۔ ہاں علم کو پسند ہو تو الگ بات ہے ۔ علم کشمکش سے گھبراتا ہے ۔ علم کو شاعر نے ابن الکتاب (کتاب کا بیٹا) کہا ہے جو پڑھتا تو سب کچھ ہے اور کرتا کچھ نہیں ۔ عشق کو اس کے برعکس شاعر نے ام الکتاب (کتاب کی ماں ) کہا ہے ۔ جملہ علوم اور ہر قسم کی کشمکش حیات کے سورج کی کرنیں یہاں سے پھوٹتی ہیں ۔ یہ وہ کتاب ہے جو جملہ علوم الہٰی کا سرچشمہ ہے ۔ اس لیے ابن الکتاب نہ بنو ام الکتاب بنو ۔