اہل ہنر سے
مہر و مہ و مشتری، چند نفس کا فروغ عشق سے ہے پایدار تیری خودی کا وجود
معانی: اہل ہنر سے: فن جاننے والوں سے ۔ مہر: سورج ۔ مہ : چاند ۔ مشتری: ایک سیارے کا نام ہے ۔ نفس: سانس ۔ فروح: ظہور ۔ پائیدار: مضبوط ۔ وجود: ہستی ۔
مطلب: اس نظم میں شاعر نے رسمی اور خوددار اہل فن کا تعارف کرایا ہے اور ان میں فرق بتایا ہے ۔ اس شعر میں وہ کہتا ہے کہ سورج، چاند، مشتری چند سانسوں یا لمحات کا ظہور رکھتے ہیں یعنی ادھر نکلے اور ادھر چھپ جاتے ہیں لیکن اے وہ شخص جو اہل فن ہونے کا دعویٰ دار ہے تیری ہستی عارضی نہیں ہے بشرطیکہ تو نے اسے عشق کے ذریعے خود معرفتی حاصل کر کے مضبوط بنا لیا ہو ۔
تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک ننگ ہے تیرے لیے سرخ و سپید و کبود
معانی: حرم: کعبہ ۔ ضمیر: باطن، دل ۔ اسود: کالا ۔ احمر: سرخ ۔ ننگ ہے : باعث شرم ہے ۔ سپید: سفید ۔ کبود: نیلا ۔
مطلب: اس شعر میں اہل فن سے خطاب کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ تیرے کعبہ دل کا باطن کالے اور سرخ کی تمیز سے پاک ہے اور اگر تو اپنے فن میں سرخ، سفید، نیلے اور کالے کی تمیز روا رکھتا ہے تو اے اہل فن کے دعویدار یہ تیرے لیے باعث شرم ہے ۔ اگر تیری خودی کا وجود تیرے عشق سے پائیدار ہو چکا ہو اور تو اسلام کی صحیح کو صحیح طور پر سمجھتا ہو تو کبھی ایسا فن پیدا نہیں کرے گا جس میں رنگ، نسل وطن وغیرہ کی تمیز ہو ۔
تیری خودی کا غیاب معرکہَ ذکر و فکر تیری خودی کا حضور عالمِ شعر و سرود
معانی: غیاب: باطن، خلوت ۔ معرکہ ذکر و فکر: ذکر اور فکر میں مشغول رہنا ۔ حضور: ظاہر ہونا ۔ عالم شعر و سرود: شاعری اور نغمے کا جہان ۔
مطلب: اگر تو واقعی اہل فن ہے اور تو نے عشق کے ذریعے اپنی خودی کو مضبوط کر رکھا ہے تو جب تو خلوت میں ہوتا ہے تو تجھے ذکر و فکر میں مشغول رہنا چاہیے ۔ یہ تیری خودی کے باطن کا ظہور ہے ۔ اور تیری خودی کی جلوت کا ظہور، تیری شاعری اور تیرے نغمہ کے جہان میں نظرآئے گا یعنی خودی کے بغیر فن حقیقی فن نہیں بنتا ۔
روح اگر ہے تیری رنجِ غلامی سے زار تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود
معانی : زار ہے: کمزور ہے ، تکلیف میں ہے ۔ دیر: بت خانہ ۔ طواف: چکر کاٹنا ۔ سجود: سجدہ کرنا ۔
مطلب: اے فن کے دعویدار اگر تیری روح خودی سے بیگانہ ہے اور غلامی کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے تو تیرے فن کی دنیا بت خانے اور اس کے پھیرے لینے اوراس کے سامنے سجدے کرنے تک محدود ہو گی یعنی تو ایسا فن پیدا کرے گا جو ان صفات سے خالی ہو گا جن کا ذکر اوپر کے اشعار میں ہو چکا ہے اور تیرا فن حق کی بجائے باطل کا نمائندہ ہو گا ۔
اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو تیری سپہ انس و جن! تو ہے امیرِ جنود
معانی: سپہ: فوج ۔ انس: انسان ۔ امیر جنود: لشکر کا سردار ۔
مطلب: اے فن کے دعویدار اگر بطور انسان تجھے اپنے شرف، عزت اور بزرگی کا صحیح علم ہو تو جن اور انسان تیرے اس طرح تابع ہوں گے جس طرح کہ کسی لشکر کے امیر کے سپاہی اس کے حکم بردار ہوتے ہیں ۔